الحمد للہ.
اگر تو وہ عورت حرمين كے علاقے كى باسى ہے تو پھر وہ اپنے محرم مرد كے ساتھ چلى جائے اور احرام كى حالت ميں ہى رہے اور حيض ختم ہونے كے بعد واپس آ جائے، كيونكہ حرمين كے علاقے ميں رہنے والے شخص كے ليے واپس آنا آسان ہے، اور اس ميں كسى مشكل اور پاسپورٹ اور ويزہ وغيرہ كى ضرورت نہيں، ليكن اگر وہ كسى دوسرے ملك كى اجنبى عورت ہے اور اس كے ليے واپس آنا مشكل ہے، تو وہ لنگوٹى باندھ لے ( يعنى اپنى شرمگاہ پر كپڑا وغيرہ باندھ لے تا كہ خون نہ بہے اور مسجد كو گندا كرے ) اور وہ طواف اور سعى كر كے اپنے عمرہ سے اسى سفر ميں فارغ ہو جائے كيونكہ اس حالت ميں اس كا طواف ضرورت بن گيا ہے، اور ضرورت محظور چيز كو مباح كر ديتى ہے.
ليكن اگر اس كا طواف وداع رہتا ہے تو اس پر وہ لازم نہيں، كيونكہ حائضہ عورت كے ليے طواف وداع لازم نہيں ہے، اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو حكم ديا كہ ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كر دى "
اور اس ليے بھى كہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ بتايا گيا كہ صفيہ رضى اللہ تعالى تعالى عنہا نے طواف افاضہ كر ليا تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" تو پھر اسے چلنا چاہيے "
يہ اس بات كى دليل ہے كہ حائضہ عورت سے طواف وداع ساقط ہو جاتا ہے، ليكن طواف افاضہ ضرورى كرنا ہو گا.
ديكھيں: فتوى الشيخ محمد ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى پمفلٹ حيض كے متعلق ساٹھ سوالات ( ستون مسئلہ فى الحيض ) .
واللہ اعلم .