جمعرات 7 ربیع الثانی 1446 - 10 اکتوبر 2024
اردو

وقوع طلاق كى شرعى قيود

سوال

ميں مسلمان ہوں ميرا ايمان ہے كہ اللہ تعالى كى حكمت ہے چاہے ہميں اس حكمت كى كوئى سمجھ نہ آئے، اللہ عزوجل كو علم ہے كہ كس چيز ميں ہمارا فائدہ ہے.
مجھے علم ہے كہ عقد نكاح ميں جو سختى ہے اس ميں حكمت يہ ہے كہ خرابى اور فساد سے اجتناب اور بعد پيدا ہو، تا كہ كوئى عورت زنا كر كے يہ نہ كہے كہ ميں تو شادى شدہ ہوں ليكن طلاق كے معاملہ ميں اتنى آسانى كيوں.
صرف ايك كلمہ كے ساتھ ہى شادى ختم ہو جاتى ہے اور پھر بغير گواہوں كے ہى اور لوگوں كو بتائے بغير ہى، اور پھر طلاق تين طلاقوں ميں محدود ہے، كيا خاندان كى تباہى ميں يہ آسانى نہيں ہے ؟
اور اسى طرح طلاق ميں گواہوں كا نہ ہونے ميں بھى خرابى نہيں كہ اگر طلاق دينے والا خاوند طلاق پر گواہ نہيں بناتا تو بيوى وراثت كا مطالبہ كر سكتى ہے، اور پھر زنا سے حاملہ ہونے كے بعد وہ طلاق دينے والے شخص كى طرف اسے منسوب بھى كر سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام نے شادى اس ليے مشروع كى ہے اور شادى كرنے كا حكم اس ليے ديا ہے كہ اس ميں بہت سارى مصلحتيں پائى جاتى ہيں، اور مصلحت كى بنا پر ہى طلاق ميں سختى كى ہے، ايسا نہيں جيسا سائل كہہ رہا ہے: كہ طلاق ميں آسانى كى گئى ہے بلكہ طلاق كے ليے كئى ايك قيود اور احكام ہيں جو طلاق ميں مرد پر تنگى كرتے ہيں، اور طلاق كے وقوع ميں كمى كرتے ہيں اس ليے طلاق خاوند كے ہاتھ نہيں دى گئى كہ وہ جب چاہے اسے استعمال كر لے.

اگر مسلمان ان احكام پر عمل پيرا ہوں تو طلاق كى شرح بہت ہى كم ہو جائے، اور خاوند بالفعل بغير كسى ضرورت كے طلاق دے ہى نہ، ليكن آج كل اكثر لوگ ان احكام كى پابندى نہيں كرتے، اور انہوں نے اللہ كى حدود سے تجاوز كرنے كى جرات كرنا شروع كر دى ہے، اسى بنا پر طلاق كثرت سے ہوتى ہے اور كچھ لوگوں نے يہ گمان كر ليا ہے كہ اسلام نے طلاق كے معاملہ ميں آسانى كر ركھى ہے.

طلاق كے وقوع ميں كمى كرنے كے ليے درج ذيل احكام مشروع كيے ہيں:

1 ـ اصل ميں طلاق دينا ممنوع ہے، يا تو حرام يا پھر مكروہ.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اصلا طلاق ممنوع ہے، صرف بقدر ضرورت طلاق مباح كى گئى ہے، جيسا كہ صحيح بخارى ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابليس اپنا تخت پانى پر لگاتا اور اپنے لشكر كور وانہ كرتا ہے، ابليس كے ہاں سب سے زيادہ مقام و مرتبہ والا وہ كارندہ ہوتا ہے جو سب سے زيادہ فتنہ و خرابى كرنے والا ہو.

شيطان ابليس كے پاس آ كر كہتا ہے ميں اس شخص كے ساتھ ہى لگا رہا حتى كہ اس نے ايسے كيا، اور ايك دوسرا شيطان آ كر كہتا ہے ميں اس كے ساتھ ہى لگا رہا حتى كہ ميں نے اس كے اور اس كى بيوى كے درميان عليحدگى كرا دى، تو ابليس اس شيطان كے قريب ہو كر كہتا ہے:

" ہاں تم نے كام كيا تم نے كام كيا، اور اسے اپنے ساتھ چمٹا ليتا ہے "

اور اللہ سبحانہ و تعالى نے جادو كى مذمت ميں فرمايا ہے:

تو وہ ان دونوں سے وہ كچھ سيكھتے ہيں جس سے آدمى اور اس كى بيوى كے درميان جدائى ڈالتے ہيں البقرۃ ( 102 ) انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 81 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اور اگر ضرورت طلاق دينے كا باعث نہ ہوتى تو دليل طلاق حرام ہونے كى متقاضى تھى، جيسا كہ آثار اور اصول اس پر دلالت كرتے ہيں، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے بندوں كى ضرورت كى بنا پر اپنے بندوں پر رحمت كرتے ہوئے بعض اوقات طلاق كو مباح كيا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 89 ).

2 ـ اللہ تعالى نے طلاق خاوند كے ہاتھ ميں دى ہے نا كہ بيوى كے ہاتھ ميں.

اگر طلاق عورت كے ہاتھ ميں دى گئى ہوتى تو آپ ديكھتے كہ اس وقت جتنى طلاق كى شرح ہے اس سے بھى كہيں زيادہ طلاقيں ہوتيں؛ كيونكہ عورت بہت جلد جذبات اور غصہ ميں آ جاتى ہے، اور اپنے فيصلہ ميں بہت جلدى كرتى ہے.

ابن ہمام حنفى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ:

طلاق كى تشريع كے محاسن ميں يہ بھى شامل ہے كہ طلاق مردوں كے ہاتھ ميں دى گئى ہے نہ كہ عورتوں كے ہاتھ ميں اس كا سبب يہ ہے كہ: مرد حضرات اپنے آپ پر زيادہ كنٹرول كرنے والے ہوتے ہيں، اور معاملات كے انجام كو مدنظر ركھتے ہيں.

ديكھيں: فتح القدير ( 3 / 463 ).

3 ـ آدمى كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے، يا پھر اس طہر ميں جس ميں بيوى كے ساتھ جماع كيا ہو.

اس طلاق كے واقع ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے آيا حيض يا جماع كرنے كے بعد طہر ميں دى گئى طلاق واقع ہو گى يا نہيں ؟

اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 72417 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس ليے جو شخص اپنى بيوى كو طلاق دينا چاہتا ہو اور بيوى حيض كى حالت ميں ہو يا پھر اس نے اس طہر ميں بيوى سے جماع كر ليا ہو تو اسے انتظار كرنا چاہيے كہ وہ حيض سے پاس ہو جائے اور پھر طہر ميں جماع كرنے سے پہلے طلاق دے، بعض اوقات يہ عرصہ اور مدت ايك ماہ تك چلا جاتا ہے، اور اكثر طور پر اس عرصہ ميں خاوند طلاق دينے كا ارادہ تبديل كر ليتا ہے، اور جس سبب نے اسے طلاق پر ابھارا تھا وہ سبب بھى ختم ہو سكتا ہے.

4 ـ طلاق كے بعد بيوى كو گھر سے نہ نكالنا، طلاق كے بعد بيوى كو گھر سے نكالنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت سے كہو ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو، اور عدت كا حساب ركھو، اور اللہ تعالى سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہيں ان كے گھروں سے نكالو اور نہ وہ خود نكليں، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى كر بيٹھيں، يہ اللہ كى مقرر كردہ حديں ہيں، جو شخص اللہ كى حدوں سے تجاوز كر جائے اس نے يقينا اپنے اوپر ظلم كيا، تم نہيں جانتے كہ شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).

اس حكم ميں حكمت يہ ہے كہ خاوند اور بيوى كو اپنى مشكل حل كرنے كے ليے مہلت اور فرصت دى جائے اور كسى تيسرے شخص كى دخل اندازى سے قبل ہى خاوند اور بيوى آپس ميں رجوع كر ليں، كيونكہ ہو سكتا ہے كسى اور شخص كى دخل اندازى اصلاح كے ليے نہيں بلكہ اور خرابى پيدا كرنے كے ليے ہو.

اگر صرف طلاق كى بنا پر ہى عورت اپنے گھر سے چلى جائے، تو اس كے نتيجہ ميں خاوند كو اور زيادہ اختلاف ہو جائيگا ـ جيسا كہ ہوتا ہے ـ اور خاوند اپنى بيوى سے رجوع ہى نہيں كريگا.

اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى آيت ميں اس حكم كى حكمت بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

تم نہيں جانتے كہ شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).

اور يہ حالت ميں تبديلى اور خاوند كا اپنى بيوى سے رجوع كرنا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 14299 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

5 ـ شريعت مطہرہ نے خاوند كے ليے طلاق دينے كى تعداد كى حد تين طلاق مقرر كى ہے.

اس ميں ظاہر تو يہى حكمت ہے تاكہ اگر وہ طلاق پر نادم ہو تو اسے بيوى سے رجوع كرنے كى فرصت اور موقع مل جائے اور ہو سكتا ہے دونوں ميں سے جس كى غلطى تھى وہ اپنى غلطى كى تصحيح كر لے.

پھر خاوند كو ايك اور موقع ديا گيا ہے، اور اگر وہ اسے تيسرى طلاق دے دے تو يہ ـ غالبا اس پر دلالت كرتى ہے كہ ـ ان كے معاملات درست نہيں ہوئے، اس ليے اب عليحدگى كے علاوہ كوئى چارہ نہيں رہا.

طاہور بن عاشور رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس عظيم تشريع ميں حكمت يہ ہے كہ: خاوندوں كو اپنى بيويوں كے حقوق كم سمجھنے سے روكنا، اور بيويوں كو اپنے ہاتھوں سے كھلونا بنانے سے منع كرنا ہے، اس ليے پہلى طلاق خاوند كے ليے خطرہ كى گھنٹى اور دوسرى طلاق تجربہ اور تيسرى طلاق كو عليحدگى اور جدائى بنايا گيا ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے موسى اور خضر عليہ السلام كے قصہ ميں فرمايا ہے:

" پہلى غلطى موسى عليہ السلام كى جانب سے بھول كر ہوئى تھى، اور دوسرى شرط تھى اور تيسرى عمدا اور جان بوجھ كر تھى "

اسى ليے خضر نے موسى عليہ السلام كو تيسرى بار كہا تھا: يہ ميرے اور آپ كے درميان جدائى ہے . الكہف ( 78 ).

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2578 ) مسند احمد ( 35 / 56 ).

محققين حضرات نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: التحرير و التقرير ( 2 / 415 ).

اور ابن ہمام حنفى رحمہ اللہ تين طلاقوں كى مشروعيت ميں حكمت بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" كيونكہ نفس جھوٹا ہے، بعض اوقات نفس يہ ظاہر كرتا ہے كہ اس كى ضرورت نہيں رہى يا اسے چھوڑنے كى ضرورت پيش آ گئى ہے، يا اس طرح كا خيال دل ميں لائے اور جب يہ ہو جائے يعنى طلاق دے بيٹھے اور نادم ہو اور سينہ ميں تنگى پيدا ہو جائے اور صبر كرنا مشكل ہو تو اللہ سبحانہ و تعالى نے تين طلاق مشروع كى ہيں تا كہ وہ پہلى بار تجربہ كرے اور تو واقعتا اس كى تصديق ہو تو وہ طلاق ميں ہى رہنے اور اس كى عدت گزر جائے.

وگرنہ اس كے ليے بيوى سے رجوع كرنا ممكن ہے، پھر اگر دوسرى بار بھى نفس اسے ايسا كرنے پر ابھارتا ہے اور غالب آ جائے تو وہ اسے طلاق دے بيٹھے تو وہ جو كچھ ہوا ہے اس ميں غور و خوض كرے.

اس ليے وہ تين طلاق اسى وقت ديتا ہے جب وہ اپنى حالت كا تجربہ كر چكا ہے، اور پھر تين طلاق كے بعد كوئى عذر قابل قبول نہيں ہوگا " انتہى

ديكھيں: شرح فتح القدير ( 3 / 465 - 466 ).

6 ـ بيوى كو وعظ و نصيحت كرنے اور بستر ميں اكيلا چھوڑنے اور ہلكا پھلكا مارنے كى مشروعيت، ليكن يہ اس وقت ہے جب بيوى اپنے خاوند كى نافرمان ہو، اور اس كى بات نہ مانے اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بد دماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو اور انہيں الگ بستر پر چھوڑ دو اور انہيں مار كى سزا دو پھر اگر وہ تمہارى اطاعت كريں تو ان پر كوئى راہ تلاش نہ كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).

اس ليے چھوٹى سے مشكل پر ہى خاوند طلاق سے ابتدا نہ كرے، بلكہ يہ سب خاوند اور بيوى كے مابين اصلاح كى كوششيں ہيں كہ طلاق سے قبل ان ميں صلح ہو جائے.

7 ـ اگر خاوند اور بيوى آپس ميں اپنے جھگڑا حل نہ كر سكنے سے عاجز ہو جائيں تو پھر ان ميں كوئى تيسرا شخص فيصلہ كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تمہيں مياں اور بيوى كے درميان آپس كى ان بن كا ڈر ہو تو ايك منصف مرد والوں كى جانب سے اور ايك عورت كے گھر والوں كى جانب سے مقرر كرو، اگر يہ دونوں صلح كرانا چاہيں گے تو اللہ دونوں ميں ملاپ كرا دےگا، يقينا اللہ تعالى پورے علم والا پورى خبر والا ہے النساء ( 35 ).

اس ليے اگر جھگڑا ہو جائے اور اسے حل كرنے ميں مشكلات پيش آ رہى ہوں تو خاوند فورى طور پر طلاق ہى نہ دے بلكہ اس جھگڑے كو حل كرنے كے ليے دو منصف افراد كے ليے ايك اور كوشش كى جائے.

اس سے واضح ہوا كہ دين اسلام نے طلاق كى مشروعيت ميں آسانى نہيں برتى، بلكہ اس ميں تو مرد پر سختى اور تشديد كى ہے تا كہ طلاق ميں كمى واقع ہو، اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا طلاق ناپسند ہے محبوب نہيں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

اسلام نے خاوند اور بيوى كے مابين آخرى حل طلاق بنايا ہے، اور اس سے قبل آپس كى مشكلات كو حل كرنے كے ليے طلاق دينے كى بجائے كئى ايك حل پيش كئے ہيں، جناب والا اگر آپ ہميں خاوند اور بيوى كے مابين جھگڑے كو حل كرنے كے ليے اسلام كى جانب سے وضع كردہ حل كے بارہ ميں بتائيں تو آپ كى عين نوازش ہو گى .

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين جھگڑا ہو جانے كى صورت ميں كئى وسائل مشروع كيے ہيں جن سے ان ميں اختلاف ختم ہو سكتا ہے اور وہ طلاق كى شبيح سے دور رہتے ہوئے آپس ميں اكٹھے رہ سكتے ہيں، ان وسائل ميں درج ذيل وسائل شامل ہيں:

وعظ و نصيحت كرنا، اور پھر اگر يہ كام نہ آئے تو اسے بستر ميں عليحدہ چھوڑنا، اور اگر يہ بھى كام نہ آئے تو ہلكا پھلكا مارنا جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بد دماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو اور انہيں الگ بستر پر چھوڑ دو اور انہيں مار كى سزا دو پھر اگر وہ تمہارى اطاعت كريں تو ان پر كوئى راہ تلاش نہ كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).

اور ان وسائل ميں يہ بھى شامل ہے كہ خاوند اور بيوى كے گھرانہ سے ايك ايك منصف شخص خاوند اور بيوى كے جھگڑے كو حل كرنے كے ليے مقرر كيا جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان ميں ہے:

اور اگر تمہيں مياں اور بيوى كے درميان آپس كى ان بن كا ڈر ہو تو ايك منصف مرد والوں كى جانب سے اور ايك عورت كے گھر والوں كى جانب سے مقرر كرو، اگر يہ دونوں صلح كرانا چاہيں گے تو اللہ دونوں ميں ملاپ كرا دےگا، يقينا اللہ تعالى پورے علم والا پورى خبر والا ہے النساء ( 35 ).

اور اگر ان وسائل سے بھى فائدہ نہ ہو اور خاوند اور بيوى كى آپس ميں صلح نہ ہو اور اختلاف باقى رہيں تو اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند كے ليے طلاق مشروع كى ہے كہ اگر سبب وہ ہے تو بيوى كو طلاق دے دے، اور اگر ايسا نہيں بلكہ بيوى اپنے خاوند كو ناپسند كرتى ہے يا پھر بيوى كى غلطى ہے تو وہ خاوند كو فديہ دے كر اپنى جان چھڑا سكتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى سے روك لينا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہارے ليے حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى واپس لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حدود قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو اس اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ كى حديں ہيں خبردار ان سے تجاوز مت كرنا، اور جو لوگ اللہ كى حدوں سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

اس ليے كہ اچھائى اور عمدگى كے ساتھ عليحدہ كر دينا اور چھوڑ دينا يہ آپس ميں اختلاف سے بہتر ہے، اور پھر اس ميں ان مقاصد كا حصول بھى ناممكن ہو جاتا ہے جن كى وجہ سے نكاح مشروع كيا گيا ہے.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر خاوند اور بيوى جدا بھى ہو جائيں تو اللہ تعالى اپنى وسعت سے ہر ايك كو بےنياز كر ديگا، اور اللہ تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).

اور پھر صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ جب ثابت بن قيس كى بيوى ثابت سے محبت نہ ہونے كى بنا پر اپنے خاوند كے ساتھ رہنے كى استطاعت نہ ركھ سكى تو نبى كريم صلى اللہ نے عورت كى اجازت دى كہ وہ ثابت بن قيس نے اسے جو مہر ميں باغ ديا تھا وہ واپس كر دے اور آپ نے ثابت بن قيس انصارى رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديا كہ باغ قبول كر كے اسے ايك طلاق دے دو، تو انہوں نے ايسا ہى كيا "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.

ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام ( 494 - 495 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب