جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

عشرہ ذوالحجہ ميں روزے ركھنے كے استحباب كے بارہ ميں احاديث

145046

تاریخ اشاعت : 10-11-2010

مشاہدات : 8735

سوال

آپ كى ويب سائٹ پر " عشرہ ذوالحجہ " كے عنوان سے ايك مضمون ہے، جس سے مجھے يہ سمجھ آئى ہے كہ نو ذوالحجہ كا روزہ ركھنا مستحب ہے، ليكن آپ نے يہ ذكر نہيں كيا كہ آيا عشرہ ذوالحجہ كے باقى ايام كے روزے ركھنا سنت ہيں يا نہيں.
كچھ احاديث ہيں جن كے صحيح ہونے كے بارہ ميں مجھے علم نہيں جن ميں ان دس ايام كى فضيلت بيان ہوئى ہے، اور وہ ان ايام ميں اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى ترغيب دلاتى ہيں اور ان ميں روزے ركھنا بھى شامل ہے, وہ احاديث درج ذيل ہيں:
1 ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" عشرہ ذوالحجہ كے علاوہ كسى اور ايام ميں اللہ تعالى كو عبادت كرنا زيادہ پسند نہيں ان ايام ميں بہت زيادہ محبوب ہيں، ان ميں ہر ايك دن كا روزہ ايك سال كے روزے كے برابر ہے، اور ہر رات كا قيام ليلۃ القدر كے قيام كے برابر ہے "
اسے امام ترمذى اور ابن ماجہ اور امام بيھقى نے روايت كيا ہے.
2 ـ حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:
پانچ كام ايسے تھے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كبھى نہيں چھوڑا كرتے تھے: يوم عاشورا كا روزہ، اور عشرہ ذوالحجہ كے روزے، اور ہر ماہ كے تين روزے، اور فجر سے قبل دو ركعت ادا كرنا... "
اسے امام احمد اور امام نسائى نے روايت كيا ہے.
ان احاديث سے سمجھ آتى ہے كہ صرف نو ذوالحجہ كا روزہ ہى سنت نہيں، بلكہ پورے عشرہ ذوالحجہ كے روزے ركھنا بھى سنت ہے.
تو كيا يہ صحيح ہے، اور آپ كے اس مضمون ميں اسے كيوں نہيں بيان كيا گيا ؟ اور كيا مذكورہ بالا احادث صحيح ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى ويب سائٹ عشرہ ذوالحجہ كے پہلے نو ايام كے روزے ركھنے كے استحباب كو بيان كيا گيا ہے، اس سلسلہ ميں آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:

سوال نمبر ( 41633 ) اور ( 49042 ) اور ( 84271 ).

دوم:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى حديث جس ميں وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عشرہ ذوالحجہ كے علاوہ كوئى اور ايام اللہ تعالى كو اتنے پسند نہيں جتنے ان دس ايام ميں عبادت كرنا پسند ہے، ان ايام ميں ہر ايك دن كا روزہ ايك برس كے برابر ہے، اور ہر رات كا قيام كرنا ليلۃ القدر كے قيام كے برابر ہے "

اسے امام ترمذى نے حديث نمبر ( 758 ) اور البزار نے حديث نمبر ( 7816 ) اور ابن ماجہ نے حديث نمبر ( 1728 ) ميں ابو بكر بن نافع البصرى كے طريق سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتا ہے كہ حدثنا مسعود بن واصل عن نھاس بن فھم عن قتادۃ عن سعيد بن المسيب عن ابى ہريرۃ رضى اللہ تعالى عنہ.

نھاس بن فھم اور مسعود بن واصل كى وجہ سے يہ سند ضعيف ہے، اسى ليے علماء حديث متفقہ طور پر اس حديث كو ضعيف كہتے ہيں.

امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ حديث غريب ہے، ہم مسعود بن واصل عن النھاس كے طريقہ كے علاوہ كسى اور سے اس حديث كو نہيں جانتے.

ميں نے محمد يعنى امام بخارى رحمہ اللہ سے اس حديث سے دريافت كيا تو وہ اس طريق كے علاوہ كسى اور سے نہيں جانتے تھے.

قتادۃ نے سعيد بن مسيب سے مرسل بيان كيا ہے، اور يحي بن سعيد نے نھاس بن فھم كے حفظ كے بارہ كلام كى ہے " انتہى

اور امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى سند ضعيف ہے " انتہى

ديكھيں: شرح السنۃ ( 2 / 624 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں ضعف ہے " انتہى

ديكھيں: شرح العمدۃ ( 2 / 555 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى سند ضعيف ہے " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 534 ).

اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ و الموضوعۃ حديث نمبر ( 5142 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.

اور حافظ ابن رجب رحمہ اللہ يہ اور دوسرى احاديث بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:

" دوسرى مرفوع احاديث بھى ہيں ليكن يہ سب موضوع ہيں، اس ليے ہم نے ان اور اس جيسى دوسرى احاديث سے اعراض كيا ہے جو عشرہ ذوالحجہ كى فضيلت ميں موضوع ہيں اور يہ بہت زيادہ ہيں " انتہى

ديكھيں: لطائف المعارف ( 262 ).

سوم:

سوال ميں وارد دوسرى حديث:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانچ چيزيں كبھى نہيں چھوڑا كرتے تھے..... "

اس حديث كا مدار ھنيدۃ بن خالد خزاعى پر ہے اس سے كئى ايك سنديں آئى ہيں اور الفاظ بھى مختلف ہيں:

پہلى:

ھنيدۃ بن خالد عن ام المومنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا.

اس سے الحر بن الصياح نے اور الحر سے اس طريق ميں تين راويوں نے روايت كى ہے:

1 ـ عمرو بن قيس الملائي:

اس كى روايت امام نسائى نے سنن نسائى حديث نمبر ( 2416 ) اور امام احمد نے مسند احمد ( 44 / 59 ) اور طبرانى نے المعجم الكبير ( 23 / 205 ) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ( 14 / 332 ) ميں اور ابو يعلى نے مسند ابى يعلى ( 12 / 469 ) ميں روايت كى ہے جس كے الفاظ يہ ہيں:

" چار چيزيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہيں چھوڑا كرتے تھے: يوم عاشوراء كا روزہ اور عشرہ ( ذوالحجہ ) كے روزے اور ہر ماہ تين ايام كے روزے، اور صبح سے قبل دو ركعتيں "

عمرو بن قيس سے روايت كرنے والا راوى ابو اسحق اشجعى ہے جو كہ مجھول ہے، اس ليے محققين سند نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 4 / 111 ) ميں بھى ضعيف كہا ہے.

2 ـ زہير بن معاويہ ابو خيثمہ:

امام نسائى نے الكبرى ( 2 / 135 ) ميں روايت كيا ہے زہير كے الفاظ يہ ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ تين دن كے روزے ركھا كرتے تھے، مہينہ كے پہلے سوموار كے دن پھر جمعرات اور پھر اس كے بعد والى جمعرات كو "

3 ـ شريك:

اسے امام نسائى نے الكبرى ( 2 / 135 ) اور امام احمد نے مسند احمد ( 9 / 460 ) طبع مؤسسۃ الرسالۃ ميں روايت كيا ہے اور اسے شريك نے مسند ابن عمر ميں سے زہير كے الفاظ كے ساتھ ہى بيان كيا ہے.

ابن ابى حاتم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں نے اپنے والد اور ابو زرعۃ سے اس حديث كے بارہ ميں دريافت كيا جسے شريك نے الحر بن الصياح عن ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ سوموار اور جمعرات اور اس كے بعد سوموار كا روزہ ركھا كرتے تھے "

ان دونوں كا كہنا تھا: يہ غلط ہے، بلكہ وہ تو الحر بن صياح عن ھنيدۃ بن خالد عن امراتہ عن ام سلمہ عن النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے طريق سے ہے " انتہى

ديكھيں: العلل ( 1 / 231 ).

محققين كا كہنا ہے كہ:

" اس كى سند ضعيف ہے شريك وہ ابن عبد اللہ النخعى ہے ـ جو كہ سيئ الحفظ ہے، اور اس پر حديث كے الفاظ مختلف ہيں پھر انہوں نے اختلاف كا ذكر كيا ہے " انتہى

ديكھيں: المسند ( 9 / 460 ).

دوسرى وجہ:

عن ہنيدۃ بن خالد عن امراتہ عن بعض ازواج النبى صلى اللہ عليہ وسلم.

اسے اس طريق سے ابو عوانہ عن الحر بن الصياح عن ہنيدۃ سے روايت بيان كرتا ہے جسے ابو داود نے حديث نمبر ( 2437 ) اور امام نسائى نے حديث نمبر ( 2372 ) اور ( 2418 ) اور امام احمد نے ( 37 / 24 ) اور ( 44 / 69 ) اور بيھقى نے سنن الكبرى ( 4 / 284 ) ميں اور امام طحاوى نے شرح معانى الآثار ( 2 / 76 ) ميں روايات كيا ہے.

ابو داود ميں اس كے الفاظ يہ ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ذوالحجہ اور يوم عاشوراء اور ہر ماہ كے تين روزے ركھا كرتے تھے مہينے كے پہلے سوموار اور جمعرات كا "

تيسرى وجہ:

عن ہنيدۃ عن امہ عن ام سلمۃ رضى اللہ تعالى عنہا:

يہ محمد بن فضيل كے طريق سے ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ہميں حديث بيان كى حسن بن عبيد اللہ نے ہنيدۃ الخزاعى وہ اپنى ماں سے اور وہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تين ايام كے روزے كا حكم ديتے، پہلى جمعرات اور سوموار اور سوموار كا.

اور ايك روايت ميں ہے:

" مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مہينے ميں تين روزے ركھنے كا حكم ديا كرتے تھے سوموار اور جمعرات اور دوسرے جمعہ كے سوموار كا "

اور ايك روايت ميں ہے:

" مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ كے تين روزے ركھنے كا حكم ديا كرتے تھے: پہلا سوموار اور جمعہ اور جمعرات كا "

اسے امام احمد نے مسند احمد ( 44 / 82 ) ميں اور ابو يعلى نے مسند ابو يعلى ( 12 / 315 ) ميں اور ابو داود نے سنن ابو داود حديث نمبر ( 2452 ) ميں اور امام نسائى نے سنن نسائى ( 4 / 221 ) ميں روايت كيا ہے.

اس ميں نو ذوالحجہ كے روزے كا ذكر نہيں، اور نہ ہى يوم عاشوراء كے روزے كا ذكر ہے، بلكہ صرف ہر ماہ تين روزے پر اقتصار كيا گيا ہے.

چوتھى وجہ:

عن ہنيدۃ عن امراتہ عن ام سلمۃ رضى اللہ تعالى عنہا:

يہ عبد الرحيم بن سليمان عن الحسن بن عبد اللہ عن الحر بن صياح عن ہنيدۃ بن خالد عن امراتہ عن ام سلمۃ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے سابقہ الفاظ سے مروى ہے.

اسے طبرانى نے المعجم الكبير ( 23 / 216 ) اور ( 23 / 420 ) اور ابو يعلى نے مسند ميں روايت كيا ہے.

پانچويں وجہ:

ہنيدہ بن خالد كہتے ہيں ميں ام المومنين كے پاس گيا اس ميں انہوں نے ام المومنين كا نام ذكر نہيں كيا.

يہ زہير بن معاويہ عن الحر بن الصياح كے طريق ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ہنيدہ الخزاعى سے سنا وہ كہہ رہے تھے كہ ميں ام المومنين كے پاس گيا اور ان كو يہ فرماتے ہوئے سنا كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر ماہ كے تين روزے ركھا كرتے تھے مہينے كے پہلے سوموار اور پھر جمعرات اور پھر اس كے بعد والى جمعرات كا "

اسے امام نسائى نے سنن نسائى حديث نمبر ( 2415 ) ميں روايت كيا ہے.

حاصل يہ ہوا كہ نقاد الحديث اس حديث كے متن اور سند كے مختلف ہونے كى بنا پر اس پر حكم لگانے ميں مختلف ہيں:

چنانچہ امام زيلعى نے نصب الرايۃ ( 2 / 157 ) اور مسند احمد كے محققين نے اس حديث كو ضعيف كہا ہے، اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھى اسے ضعيف كہا ہے جيا كہ مجموع فتاوى ابن باز ( 15 / 417 ) ميں درج ہے، اس ليے كہ حديث كے متن اور سند ميں اضطراب ہے، لگتا ہے كہ حديث پر حكم كے ليے يہى متجہ ہے.

ليكن علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ( 7 / 196 - 199 ) ميں زہير بن معاويہ اور ابو عوانہ عن الحر بن صياح كى دونوں روايتوں كو صحيح قرار ديا ہے.

اور دار قطنى كى العلل ( 15 / 121 - 122 ) ميں درج ہے كہ:

" ہنيدہ بن خالد الخزاعى عن حفصہ كى حديث كے بارہ ميں دريافت كيا گيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چار اشياء كو ترك نہيں كيا كرتے تھے: يوم عاشوراء كا روزہ اور عشرہ ذوالحجہ كا روزہ اور ہر ماہ تين روزے، اور صبح سے قبل دو ركعت "

تو وہ كہنے لگے: اسے حر بن صياح ہنيدہ بن خالد خزاعى كے طريق سے حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كرتا ہے.

اور حسن بن عبيد اللہ اس كى مخالفت كرتے ہوئے اس سے اختلاف كيا ہے چنانچہ اسے عبد الرحيم بن سليمان حسن بن عبيد اللہ عن امہ عن ام سلمہ كے طريق سے بيان كرتے ہيں.

اور اسے ابو عوانہ نے حر بن صياح عن ہنيدۃ عن امراتہ عن بعض ازواج النبى صلى اللہ عليہ وسلم سے بيان كيا ہے جس ميں انہوں نے ام المومنين كا نام نہيں ليا " انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب