اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ايك لڑكے كو پسند كيا اور اس سے شادى كرنا چاہى ليكن لڑكے كے والدين نے انكار كيا تو اس نے لڑكى كو چھوڑ ديا اور لڑكى رب كو ملامت كرنے لگى

145115

تاریخ اشاعت : 18-01-2011

مشاہدات : 6366

سوال

ميرى بہن كى سہيلى كہتى ہے كہ يونيورسٹى ميں اس كے دوست نے اس سے شادى كرنا چاہى ليكن ابتدا ميں اس نے انكار كر ديا، ليكن وہ اسے كھونا نہيں چاہتى تھى، كيونكہ وہ متقى شخص تھا، وہ كہتى ہے وہ نماز كى پابندى كرتا تھا، اس لڑكى نے اللہ سے دعا كى اگر وہ اورنج كلر كى قميص پہن كر يونيورسٹى آيا تو يہ اللہ كى جانب سے اسے بطور خاوند قبول كرنے كى علامت ہے.
اور اگر كسى وقت نہ ہى اور اس نے كسى طريقہ سے بات نہ كى تو يہ ايجابى صورت ہو گى، اور وہ ہوا جو وہ چاہتى تھى اور وہ لڑكى اس لڑكے سے دو برس تك بات چيت كرتى رہى ليكن اب لڑكے كے والدين انكار كرتے ہيں، اور وہ بھى اپنے الدين كى وجہ سے لڑكى كو چھوڑنا چاہتا ہے.
ميرى بہن بہت روئى اور بيمار ہو گئى، اور اپنے ہوش كھو بيٹھى اور اللہ كوم لامت كرنے لگى، مجھے يہ بتائيں كہ ميں كيا كروں، اور اسے كيا مشورہ دوں، كيا يہ شيطان كى جانب سے تو نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشك و شبہ يہ شيطان كى جانب سے ہے، اور يونيورسٹى وغيرہ ميں مرد و عورت كے اختلاط كا نتيجہ ہے، اگر ہر مسلمان مرد و عورت اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كى پابندى كرے اور عفت عصمت اور حشمت اور حسن خلق اختيار كرے تو لوگوں كو ان كے دين اور دنيا ميں وہ كچھ نہ پہنچے جو ان كے ساتھ ہو رہا ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اخلاط والے سكول اور يونيورسٹيوں ميں طالب علم كو اخلاط سے اجتناب كرنا چاہيے، اور وہ كوئى ايسا سكول اور يونيورسٹى تلاش كرے جس ميں مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو؛ كيونكہ نوجوان لڑكوں كان وجوان لڑكيوں كے قريب ہونا بہت زيادہ شر و فساد اور خرابى كا باعث ہے.

اس ليے مومن پر واجب ہے كہ وہ ان امور كے ابتلاء ميں پڑ جائے تو وہ اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرے حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے كوئى مخرج اور نكلنے كى راہ بنا دے، اور وہ اپنى نطريں نيچے ركھے، اور لڑكيوں كى طرف ديكھنے اجتناب كرے يا پھر اس كى محاسن كى ديكھنے كى كوشش مت كرے، بلكہ وہ اپنى نظريں زمين پر ركھے، اور لڑكى كى جانب مت ديكھے، اور جب بھى اچانك سامنے آ جائے تو وہ اپنى نظريں نيچى كر لے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 5 / 313 ).

مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت كے دلائل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1200 ) اور ( 8872 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

ـ اس مخالفت كا انجام يہ ہے كہ آج بہت سارے نوجوان لڑكے اور لڑكياں حرام تعلقات عشق و محبت اور دوستى اور فحاشى كے اسباب ميں پڑ گئے ہيں.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كسى اجنبى عورت سے عشق كرنے ميں اتنا بڑا فساد اور فتنہ ہے جسے اللہ رب العباد ہى شمار كر سكتا ہے، اور يہ ان بيماريوں ميں شامل ہوتا ہے جو دين كو بھى خراب كر كے ركھ ديتى ہے اور پھر اس كى عقل خراب ہوتى ہے، اور پھر اس كا جسم " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 132 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 82010 ) كے جوابات كا بھى مطالعہ كريں.

ـ عشق جن خراب معنوں كو پيدا كرتا ہے ان ميں دل كے مادہ كا خراب ہونا شام ہے، اور اسى طرح اس بيمار دل كے ارادہ شہوت كا نيچا ہونا، اور حرام طريقہ اور وسائل سے رغبت كا حصول بھى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اللہ پر يقين متزلزل ہو جاتا ہے، اور خواہش كے عدم حصول كى صورت ميں اللہ كوم لامت كرنا بھى شامل ہے.

لہذا اس لڑكى يا يہ كہنا كہ: اگر وہ يونيورسٹى ميں اورنج كلر كى قيمص پہن كر آيا تو يہ اللہ كى جانب سے اسے بطور خاوند قبول كرنے كى علامت ہو گى .... الخ قصہ ميں جو بيان كيا گيا ہے.

اس كے متعلق يہ كہا جائيگا: اورنج كلر كے لباس كا خاوند كى قبوليت اور عدم قبوليت ميں كيا تعلق ہے، يا پھر اس كا يونيورسٹى ميں آنے يا نہ آنے كا اس سے كيا تعلق ہے، يہ تو كاہنوں اور نجوميوں اور بدفالى كے زيادہ قريب ہے.

ہر مسلمان كے ليے تو مشروع يہ ہے كہ جب بھى اس كے دل ميں كسى كام كے متعلق كچھ ہو اور خاص ان امور ميں جس كى اس كى زندگى ميں اہميت ہو اور خطرہ ہو تو اس كے مشروع يہ ہے كہ وہ اس كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى سے استخارہ كرے، اور پورے اخلاص كے ساتھ اپنے رب سے رجوع كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى سے وہ طلب كرے جس ميں اس كے ہدايت و توفيق ہو اور پھر وہ معاملہ اللہ كے سپرد كر دے، اور اللہ نے اس كے ليے جو اس كے مقدر ميں كيا ہے اس پر راضى ہو جائے.

آپ استخارہ كے بارہ ميں مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 11981 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ـ سوال ميں بيان كيا گيا ہے كہ اس لڑكى نے اپنے رب كو ملامت كى؛ يہ سب سے برا اور شنيع فعل ہے جو اس لڑكى كى جانب سے بيان كيا گيا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ اسے ہدايت دے، اور اس كى اصلاح فرمائے، اور اسے سچى توبہ كى توفيق دے.

اس نے اپنے آپ كى ملامت كيوں نہ كى كہ اس نے ايك اجنبى اور غير محرم نوجوان سے دل لگايا اور اس كے ساتھ شرعى طور پر حرام تعلقات قائم كيے ؟

اس نے اپنے آپ كو كيوں نہ ملامت كى كہ اس نے اپنا معاملہ اللہ كے سپرد نہيں كيا، جو علام الغيوب ہے، اور اللہ رب العالمين سے خير طلب كرنے ميں سچائى كيوں اختيار نہ كى ؟!

على رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے:

" بندہ اپنے نفس كى ہى ملامت كرے، اور اپنے گناہ سے خوفزدہ ہو، اور اپنے رب كے علاوہ كسى سے اميد مت ركھے! "

اس لڑكى كو اپنے پروردگار سے حسن ظن ركھنا چاہيے تھا كہ وہى و فضل و عطاء والا اور جميل ہے، اگر ملامت كرنى ہى تھى تو اپنے نفس امارہ كوم لامت كرتى جو برائى كى حكم كرتا ہے، اسے اپنے دين اور اعتقاد كے خراب ہونے سے خوفزدہ ہونا چاہيےتھا، كہ كہيں اس كى دنيا و آخرت ہى تباہ نہ ہو جائے.

اس نے اپنے پروردگار كے بارہ ميں سوء ظن ركھا اور رحيم و كريم اللہ ذوالجلال و اكرام پر ملامت كرنے لگى، جو اہل ثنا و تعريف اور مجد و تقوى اور مغفرت والا ہے، اور وہ بھى ايسے معاملہ ميں جس كے انجام سے وہ جاہل تھى، وہ نہيں جانتى كہ خير كہاں اور برائى و شر كس ميں ہے.

ا ساور اس طرح كے معاملات تو الحمد للہ اور قدر اللہ و ما شاء اللہ فعل يعنى اللہ نے جو چاہا وہى ہو گا كہنا چاہيے، اور اس طرح كے دوسرے الفاظ جو اہل علم سے ثابت ہيں كہ اللہ كى رضا ميں كہے جائيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے بہتر ہو، اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو پسند كرو اور وہ تمہارے ليے برى ہو، اللہ تعالى جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 216 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مومن كا معاملہ بہت ہى عجيب ہے، اس كے سارے معاملات ميں ہى خير و بھلائى ہے، اور يہ مومن كے علاوہ كسى اور كے ليے نہيں بلكہ صرف مومن كے ليے ہى ہے، اگر اسے اچھائى پہنچتى ہے تو وہ شكر كرتا ہے يہ اس كے ليے بہتر ہے، اور اگر اسے كوئى تكليف پہنچتى ہے تو اس پر صبر كرتا ہے تو يہ اس كے ليے بہتر اور خير ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بندہ اپنے ہر اعتبار سے اپنے نفس كے ليے ہر طرح سے مصلحت نہيں چاہتا، چاہے وہ اس كے اسباب كو بھى جان لے، وہ جاہل اور ظالم ہے، اور اس كا پروردگار اس كى مصلحت چاہتا ہے اور اس كے ليے وہ اس كو اسباب بھى فراہم كرتا ہے، اور اس كا سب سے عظيم سبب يہ ہے كہ:

جسے بندہ ناپسند كرتا ہے، كيونكہ اس كى مصلحت اس ميں جسے وہ ناپسند كرتا ہے، اس كے مقابلہ ميں جسے وہ پسند كرتا ہے اس ميں كئى گناہ زيادہ مصلحت ہے " انتہى

ديكھيں: مدارج السالكين ( 2 / 205 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب