الحمد للہ.
اول:
عورت كے ليے خاوند كا مال بغير اجازت لينا جائز نہيں ہے، ليكن اگر وہ بيوى كے ساتھ بخل سے كام ليتا ہے يعنى اس پر واجب كردہ نفقہ ميں بخل كرے تو پھر بيوى كے ليے اتنا كچھ اچھے طريقہ سے لينا جائز ہے جو بيوى اور اس كى اولاد كے ليے كافى ہو.
بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ ھند بن عبتہ رضى اللہ تعالى عنہا آ كر عرض كرنے لگي:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك بخيل آدمى ہے، مجھے اتنا نہيں ديتا جو ميرے اور ميرے بچے كے ليے كافى ہو، مگر وہ كچھ جو ميں اس كے علم كے بغير لے لوں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اچھے طريقہ سے جو تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو لے ليا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ).
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 20433 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
عورت جو تنخواہ حاصل كرتى ہے وہ عورت كى ملكيت ہے اور اسے اس ميں تصرف كرنے كا مكمل حق حاصل ہے وہ اسے جس طرح چاہے خرچ كر سكتى ہے، اور اس ميں سے خاوند كو كچھ بھى دينا واجب نہيں، اور نہ ہى يہ لازم ہے كہ وہ اس تنخواہ سے گھريلو اخراجات ميں خاوند كے ساتھ شريك ہو.
بلكہ بيوى اور اولاد كے اخراجات اور نان و نفقہ تو خاوند پر واجب ہيں، چاہے بيوى كتنى بھى مالدار ہو، ليكن اگر خاوند نے نكاح كے وقت شرط ركھى ہو كہ بيوى بھى گھريلو اخراجات ميں شريك ہوگى تو پھر اور بات ہے، يا پھر عرف عام ميں ہو كہ ملازمت كرنے والى عورت گھريلو ا خراجات ميں ضرور شريك ہوتى ہو.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 126316 ) اور ( 4037 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
اگر خاوند نے عقد نكاح ميں شرط نہيں ركھى كہ وہ ملازمت كى اجازت دينے كے مقابلہ ميں بيوى كى تنخواہ ميں سے كچھ لےگا تو پھر خاوند كے ليے بيوى كى تنخواہ ميں سے كچھ بھى لينا جائز نہيں، ليكن اگر بيوى اپنى خوشى و رضامندى سے كچھ دے تو ٹھيك ہے وگرنہ نہيں.
اور اگر وہ كچھ ليتا ہے تو اس نے وہ مال ليا ہے جس ميں اس كا كوئى حق نہيں تھا، اور اس حالت ميں عورت كے ليے جائز ہے كہ وہ اس كے علم كے بغير اپنا حق لے سكتى ہے.
شيخ شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كوئى شخص آپ پر ظلم كرے يعنى وہ آپ كے مال ميں سے كسى شرعى طريقہ كے بغير لے لے اور آپ كے ليے اسے ثابت كرنا ممكن نہ ہو، اور آپ پرامن اور بغير رسوا ہوئے اور سزا كے بغير اپنے اوپر ظلم كے برابر لينے پر قادر ہو جائيں تو كيا آپ اپنے حق كے برابر لے سكتے ہيں يا نہيں ؟
صحيح قول اور ظاہرى نصوص اور قياس پر زيادہ جارى يہى ہے كہ آپ اپنے حق كے برابر لے ليں اس سے زيادہ نہيں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر بدلہ لو بھى تو بالكل اتنا ہى جتنا تمہيں صدمہ پہنچايا گيا ہو، اور اگر صبر كر لو تو بےشك صابروں كے ليے يہى بہتر ہے النحل ( 126 ).
اور ايك جگہ فرمان بارى تعالى ہے:
جو تم پر زيادتى كرے تم بھى اس پر اسى كے مثل زيادتى كرو جو تم پر كى ہے البقرۃ ( 194 ).
اس قول كے قائلين ميں ابن سيرين اور ابراہيم النخعى اور سفيان ثورى اور مجاہد وغيرہ شامل ہيں.
اور علماء كرام كے ايك گروہ جن ميں امام مالك رحمہ اللہ شامل ہيں كا كہنا ہے كہ ايسا كرنا جائز نہيں، خليل بن اسحاق المالكى بھى اپنى مختصر ميں اسى كے قائل ہيں جو انہوں نے وديعت و امانت كے موضوع ميں كہى ہے:
ان كا كہنا ہے: اسے كوئى حق نہيں كہ جس نے اس پر ظلم كيا ہے اس سے اسى مثل لے لے.
اس قول كے قائلين كى دليل يہ حديث ہے كہ:
" جس نے تمہارے پاس امانت ركھى اسے اس كى امانت واپس كرو، اور جس نے تم سے خيانت كى تم اس سے خيانت مت كرو "
اگر فرض كر ليا جائے كہ يہ حديث صحيح ہے تو بھى اس سے استدلال نہيں كيا جا سكتا؛ كيونكہ جس نے اپنے حق كے مطابق ليا اور اس سے زائد نہيں ليتا تو اس نے كوئى خيانت نہيں، بلكہ اس نے تو اپنے نفس كے ساتھ انصاف كيا ہے جس نے اس پر ظلم كيا تھا " انتہى
ديكھيں: اضواء البيان ( 2 / 467 ).
اس فعل كا حكم يہى ہے، ليكن خاوند اور بيوى كو چاہيے كہ وہ دونوں ايك دوسرے كے ساتھ حسن معاشرت كريں اور اچھے طريقہ سے بود و باش ركھيں، اور ہر ايك دوسرے سے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جائے؛ تا كہ ان دونوں كے مابين حسن معاشرت قائم رہے.
واللہ اعلم .