سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

خریدار ادائیگی نہ کر سکے تو بیع فسخ کرنا، اور کرائے کی چیز کرائے دار کو ہی فروخت کرنے کا حکم

سوال

ایک شخص نے تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والے ایک آلے کو دوسرے شخص کو کرائے پر دینے کا معاہدہ کیا، پھر کرائے پر لینے والے نے مالک سے اسے خریدنے کا مطالبہ کر دیا اور 4 ماہ تک اس کی ادائیگی کرنے کی بات طے ہو گئی، لیکن ادائیگی مزید 3 ماہ مؤخر ہو گئی، جس پر مالک نے اس آلے کی بیع کا معاہدہ مشتری کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کینسل کرنے کا فیصلہ کر لیا، مالک کو تاخیر کی وجہ سے کافی نقصان بھی ہوا ہے، اور یہ مشتری اس آلے کو گزشتہ 7 ماہ سے استعمال کر رہا ہے، تو یہاں سوال یہ ہے کہ: کیا مالک سابقہ 7 ماہ کی اجرت وصول کرنے کا حق دار ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جب فریقین کے درمیان بیع پکی ہو جائے ، اور مشتری سامان وصول کر لے تو فروخت کنندہ اس بیع کو کالعدم نہیں کر سکتا؛ کیونکہ بیع کرنے سے معاہدہ نافذ ہو گیا، اب اس معاہدے کو طرفین کی رضا مندی سے یا کسی قابل قبول عذر کی وجہ سے ہی کالعدم قرار دیا جائے گا۔

خریدار کا ادائیگی سے قاصر ہو جانا بیع کو کالعدم قرار دینے کے قابل عذر ہے، بشرطیکہ کہ بیع کے وقت بائع کو مشتری کی مالی تنگی کا علم نہ ہو، لیکن اگر بائع کو اس کا علم تھا پھر بھی اس نے فروخت کر دیا تو اب بیع فسخ کرنے کا اسے اختیار نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر بائع کو مشتری کے تنگ دست ہونے کا علم تھا تو اب بائع کے لیے بیع فسخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے؛ چنانچہ اگر کوئی آدمی کسی کو چیز اس لیے فروخت کرتا ہے کہ وہ اسے صاحب حیثیت سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ خریدار کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے تو بائع اس صورت میں بیع فسخ کر سکتا ہے؛ کیونکہ مشتری کو اس صورت میں ڈھیل دینے پر بائع کو نقصان ہو گا۔

لیکن اگر بائع کسی ایسے شخص کو مال فروخت کرتا ہے جس کے بارے میں اسے علم تھا کہ اس کے پاس ادائیگی کے لیے سرمایہ نہیں ہے تو اب بائع کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے؛ کیونکہ بیع کے وقت مشتری کی مالی حالت کا اسے علم تھا۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (8/364)

اسی طرح جب بائع کو یہ علم ہو کہ خریدار تنگ دست تو نہیں ہے لیکن ویسے ہی ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو اس صورت میں بھی بائع کے لیے بیع فسخ کرنا جائز ہے اور فروخت کردہ سامان واپس لے سکتا ہے۔

یہ موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (32/136) میں ہے کہ:
"ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مشتری ادائیگی کی طاقت رکھتا ہے لیکن بلا وجہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے تو بائع لڑائی جھگڑے کے نقصانات سے بچنے کے لیے بیع فسخ کر سکتا ہے۔ اور حنبلی فقہی کتاب: "الانصاف" میں ہے کہ: یہی موقف درست ہے۔" ختم شد

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب یہ بات ظاہر ہو جائے کہ ادائیگی کے لیے بلا وجہ ٹال مٹول کر رہا ہے تو بائع بیع فسخ کر سکتا ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ ادائیگی کے معاملے میں فقیروں سے بڑھ کر تنگ کرتے ہیں؛ کیونکہ فقیر شخص کو اگر اللہ تعالی نواز دے تو ممکن ہے کہ وہ فوری ادائیگی کر دے، لیکن بلا وجہ تاخیر کرنے والے لوگ ادائیگی نہیں کریں گے۔
اس لیے درست موقف یہ ہے کہ بائع اپنے مال کے تحفظ کے لیے بیع فسخ کر سکتا ہے ، پھر ایک طرف یہ بائع کے مال کا تحفظ ہے تو دوسری طرف تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کے لیے سخت پیغام بھی ہے؛ کیونکہ جب انہیں علم ہو گا کہ ادائیگی میں تاخیر کرنے کی وجہ سے بیع فسخ ہو جائے گی تو وہ راہ راست پر آ جائے گا اور مستقبل میں ادائیگی کے لیے تاخیر نہیں کرے گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (8 / 364)

دوم:
کرائے کا معاہدہ پورا یا ختم ہونے کے بعد اس آلے کو فروخت کیا گیا تو ایسی صورت میں اس مدت کا کرایہ وصول کرنا آپ کے لیے جائز نہیں ہے جس میں اس نے یہ آلہ استعمال کیا ہے؛ کیونکہ آلہ اس وقت اس کی ملکیت میں تھا اور وہ اس آلے کا ضامن بھی تھا، چنانچہ اگر اس مدت کے دوران یہ آلہ خراب ہو جائے یا کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو وہی اس کا ذمہ دار ہوتا۔
اور اگر کرائے کا معاہدہ ختم نہیں کیا گیا، بلکہ کرائے کا معاہدہ پورا ہونے سے پہلے یہ آلہ فروخت کر دیا گیا تو اس صورت میں آپ صرف کرائے کی بقیہ مدت کا کرایہ وصول کر سکتے ہیں۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (1 / 275) میں ہے کہ:
"اگر کرایہ پر دی ہوئی چیز اسی کرایہ دار کو فروخت کر دی جائے تو شافعی اور حنبلی فقہائے کرام سمیت دیگر اہل علم کے ہاں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اس سے کرائے کا معاہدہ ختم نہیں ہو گا۔" ختم شد

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (6/53)میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی چیز کرائے پر دی، پھر وہی چیز فروخت کر دی تو بیع درست ہے۔۔۔ اور اگر کرائے دار نے اسے خریدا ہے تو تب بھی بیع درست ہے؛ کیونکہ جب کسی غیر کو بھی وہ چیز فروخت کرنا جائز ہے تو کرایہ دار کو فروخت کرنا بالاولی جائز ہو گا؛ کیونکہ فروخت ہونے والی چیز اسی کرایہ دار کے قبضے میں ہے ۔۔۔ اس لیے اس چیز کا کرایہ خریدار دے گا ، اور قیمت بھی ادا کرے گا، اور یہ دونوں چیزیں بائع اسی طرح وصول کرے گا جیسے کرائے دار کے علاوہ کسی اور خریدار سے بائع وصول کرتا۔" ختم شد
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب