جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

کیا مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت کو ناپسند کرنا نواقض اسلام میں شامل ہے؟

سوال

میں نے سوال نمبر: (31807 ) کے جواب میں نواقض اسلام پڑھے ہیں، جن میں دسواں ہے: "اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت سے نفرت کرے، چاہے وہ اس پر عمل پیرا ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے کہ: ذلك بأنهم كرهوا ما أنزل الله فأحبط أعمالهم ترجمہ: یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت سے نفرت کی، تو اللہ تعالی نے ان کے اعمال رائگاں کر دئیے۔[محمد: 9] ۔۔۔۔ ان تمام نواقض کے بارے میں یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص یہ کام مزاح میں ، یا سنجیدگی سے یا ڈر کر کرے تو ہر حالت میں حکم یکساں ہے، صرف اس شخص کا حکم مختلف ہو گا جس سے یہ کام زبردستی کروائے گئے ہوں۔ یہ تمام کام بہت خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے سر زد بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے ہر مسلمان ان سے متنبہ رہے، اور اپنے آپ کو ان سے بچائے۔ ہم اللہ تعالی کی سزا کا موجب بننے والے کاموں سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں، اللہ تعالی خیر الخلق جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔۔۔"

تو بہت سی خواتین مردوں کے ایک سے زیادہ شادی کرنے سے نفرت کرتی ہیں، اور یہ خواتین اس بات کا اظہار اپنی مجلسوں میں سنجیدہ اور مزاح ہر دو حالت میں بر ملا بھی کرتی ہیں، تو کیا یہ ارتداد میں شامل ہو گا، اور کیا ان پر توبہ کرنا اور دوبارہ مسلمان ہونے پر غسل کرنا بھی لازم ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب کوئی مسلمان اللہ تعالی کے حکم پر راضی ہو، اسی کے مطابق فرمانبرداری بجا لائے، اسے مسترد نہ کرے نہ ہی اس پر کوئی اعتراض کرے تو مسلمان وہی عمل کر رہا ہے جو اس پر واجب ہے۔ اب اگر اس کے دل میں اس کام کے متعلق طبعی کراہت بھی آئے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، جیسے انسان فطری طور پر قتال اور جنگ کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی اللہ کا حکم مانتے ہوئے اسے قبول بھی کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے، اسی کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: تم پر قتال فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور [چیزوں کی حقیقت ] اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے ۔[البقرۃ: 216]

تو عورت کا اپنی سوتن کو برداشت نہ کرنا بھی اسی میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ بھی ایک فطری ناگواری ہے؛ اس لیے کہ آنے والی سوتن اس کے خاوند میں شریک بنے گی۔ لیکن دو باتوں یعنی اللہ تعالی کی جانب سے قتال کی فرضیت کو اچھا نہ سمجھنے اور قتال کو اچھا نہ سمجھنے، دونوں میں فرق ہے۔ اسی طرح ایک سے زیادہ شادی کی شریعت میں اجازت کو ناگوار سمجھنے اور سوکن کو ناگوار سمجھنے میں بھی فرق ہے۔ لہذا جو چیز اللہ تعالی نے فرض قرار دی ہے یا جس چیز کو شریعت کا حصہ بنایا ہے تو اسے دین اور عبادت سمجھتے ہوئے اچھا سمجھے چاہے یہ فرض کردہ عمل انسان کے لیے طبعی طور پر گراں اور مشقت کا باعث ہو۔ تاہم انسان کا ایمان جس قدر کامل ہو گا اس کی ناگواری ، خوش گواری میں اسی طرح بدل دے گا جیسے وہ ان کاموں کو شرعی طور پر اچھا سمجھتا ہے۔

لہذا نواقض اسلام کے بیان میں جس چیز کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو اچھا نہ سمجھے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت پر راضی رہنے کی شرط یہ نہیں ہے کہ انسان کو درد بھی محسوس نہ ہو اور اسے ناگوار بھی نہ گزرے؛ بلکہ شریعت پر راضی رہنے کی شرط یہ ہے کہ شرعی حکم پر اعتراض نہ کرے اور اس سے ناگواری نہ ہو۔ اسی عدم تفریق کی وجہ سے کچھ لوگوں کے لیے طبعاً ناگوار چیز پر اظہار رضا مندی مشکل کا باعث بن گئی اور کہنے لگے کہ: انسانی طبع میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ ناگواری اور رضا مندی دونوں الگ الگ اور متضاد چیزیں ہیں۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ: در حقیقت اس [طبعا ناگواری اور شرعاً اظہار رضا مندی] میں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ کراہت اور درد کا احساس رضا مندی کے منافی نہیں ہے بالکل ایسے ہی کہ جس طرح مریض کڑوی دوا پینے کے لیے راضی ہو جاتا ہے، اور شدید گرمی کے دن میں بھوک اور پیاس کے باوجود انسان روزہ رکھنے پر راضی ہوتا ہے، ایسے ہی مجاہد شخص راہِ الہی میں زخم وغیرہ کھانے کے لیے راضی ہوتا ہے۔" ختم شد
"مدارج السالكين" (2/175)

اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ یہاں لفظ { كُرْهٌ } مصدر ہے جو کہ اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی یہ لفظ مکروہ کے معنی میں ہے، مصدر بمعنی اسم مفعول بہت زیادہ مرتبہ استعمال ہوتا ہے، مثلاً: وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ [الطلاق: 6] تو اس آیت میں لفظ { حَمْلٍ } محمول کے معنی میں ہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد میں بھی لفظ " رد " مردود کے معنی میں ہے۔
جملہ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ حال ہونے کی وجہ سے محلا منصوب ہے، اور اس میں ضمیر "ھو" کا مرجع قتال ہے، کتابت یعنی فرضیت مرجع نہیں ہے؛ کیونکہ مسلمان اللہ تعالی کے فرض کرنے کو مکروہ نہیں سمجھتے بلکہ بہ تقاضائے بشریت قتال ان کے لیے ناگوار چیز ہے؛ تو ان دونوں باتوں میں فرق ہے کہ کوئی یہ کہے کہ: ہم اللہ کے قتال فرض کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے، اور اس بات میں کہ ہمیں قتال ناگوار ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قتال اور جنگ کو ناگوار سمجھنا یہ تو طبعی اور فطری امر ہے اس لیے کہ انسان کسی سے لڑنا اور جنگ نہیں کرنا چاہتا کہ کہیں وہ خود بھی قتل نہ ہو جائے؛ تاہم جب قتال ہم پر اللہ تعالی کی طرف سے فرض کردہ ہو تو یہی قتال ایک اعتبار سے ہمارے ہاں محبوب بن جائے گا اور ایک اعتبار سے ناگوار ہو گا؛ محبوب اس اعتبار سے کہ یہ اللہ تعالی نے ہم پر فرض قرار دیا ہے اسی لیے صحابہ کرام جہاد میں شرکت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوتے تھے اور جہاد میں شرکت کے لیے اصرار بھی کرتے تھے، جبکہ دوسرے اعتبار سے ناگوار ہو گا کہ انسانی مزاج طبعی طور پر جنگ و جدال سے نفرت کرتا ہے۔"

پھر اس آیت کریمہ کے فوائد ذکر کرتے ہوئے مزید کہا:
"اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ: انسان اگر کسی شرعی فریضے کو طبعی طور پر اچھا نہ سمجھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن یہ ناگواری بطور شرعی حکم نہ ہو بلکہ فطری ہو، کیونکہ بطور شرعی حکم اسے تسلیم کرنا اور دل کی خوشی سے قبول کرنا لازم ہے۔" ختم شد
تفسیر القرآن، از ابن عثیمین

آپ رحمہ اللہ نے ایک اور جگہ پر یہ بھی کہا ہے کہ:
"فرمانِ باری تعالی: وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں "ھو" ضمیر کا مرجع قتال ہے نہ کہ فرضیت قتال؛ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ صحابہ کرام اللہ تعالی کے فریضے کو ناگوار سمجھیں، ہاں قتل ان کے ہاں ناگوار چیز تھی کہ قتال میں شریک ہوں اور پھر مقتول بنیں۔ اور دونوں باتوں میں فرق ہے کہ انسان اللہ کے حکم کو ناگوار سمجھے یا جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اسے ناگوار سمجھے۔" ختم شد
"مؤلفات الشیخ ابن عثیمین" (2/ 438)

خلاصہ یہ ہوا کہ:
مومن عورت اللہ تعالی کی ایک سے زائد شادی کی شرعی اجازت کو تسلیم کرے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ اس میں حکمت بھی ہے اور بہتری بھی ؛ اگرچہ اپنے مقابلے میں خاوند کی دوسری بیوی اسے ناپسند رہے کوئی حرج نہیں لیکن شرعی حکم کو ناگوار مت سمجھے، بالکل ایسے ہی جیسے انسان قتال پسند نہیں کرتا، اور کسی بھی ایسی چیز کو پسند نہیں کرتا جو انسان کے آرام میں خلل پیدا کرے مثلاً: نماز فجر کے لیے ٹھنڈنے پانی سے وضو کرنا، شدید گرمی میں روزے رکھنا وغیرہ۔ حدیث مبارکہ میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے، اور آگ کو من مانیوں سے گھیر دیا گیا ہے۔)اس حدیث کو امام بخاری: (6487) اور مسلم : (2823) نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں کہتے ہیں:
"ناگوار چیزوں میں درج ذیل چیزیں بھی شامل ہیں: مکمل محنت اور لگن سے عبادت کرنا، تسلسل کے ساتھ عبادت کرنا، عبادت کے لیے پیش آمدہ مشقت پر صبر کرنا۔ اسی طرح غصہ پی جانا، معافی اور در گزر سے کام لینا، صدقہ کرنا، برا سلوک کرنے والے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، من چاہی شہوتوں سے اپنے آپ کو روکنا وغیرہ۔" ختم شد

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: (کیا میں تمہیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے ؟) صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا: (ناگواریوں کے باوجود اچھی طرح وضو کرنا ، مساجد تک زیادہ قدم چلنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ تو یہی رباط [شیطان کے خلاف چوکیداری] ہے۔) مسلم: (251)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث میں مذکور ناگواریاں سخت سردی اور جسمانی تکلیف سمیت دیگر صورتوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ " ختم شد

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10991 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب