اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے گھر رہائش اختیار کر سکتا ہے؟ اور وہاں نماز ادا کر سکتا ہے؟

سوال

کیا ہمارے لیے بطور مسلمان کسی غیر مسلم کے گھر میں رہنا جائز ہے؟ اور کیا ہم ان کے گھر میں نماز ادا کر سکتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان کسی غیر مسلم سے مکان خرید کر یا کرائے پر لے کر وہاں رہائش اختیار کر سکتا ہے، تاہم مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ مکان کو پاک صاف کر لے کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہاں پر شرکیہ امور کے اثرات اور غیر اخلاقی تصاویر اور شراب وغیرہ کی نجاست لگی ہوئی ہو۔

لیکن اگر وہاں رہنے کا مطلب بطور مہمان ، دوست یا تعلق دار ہونے کی وجہ سے ہو کہ غیر مسلموں کے ساتھ رہے تو پھر یہ انتہائی سخت ضرورت کی بنا پر ہونا چاہیے ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے: (صرف مومن کو ہی اپنا دوست بناؤ اور تمہارا کھانا صرف متقی لوگ ہی کھائیں)
ترمذی: (2395) البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم دیکھ لو کہ کس سے دوستی کر رہے ہو)
ابو داود: (4833) اسے البانی نے "صحیح ابو داود" وغیرہ میں حسن قرار دیا ہے۔

ابو داود کی شرح عون المعبود میں ہے کہ:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: دوستی کرنے سے پہلے غور و فکر  کر لے اور چانچ پڑتال کر لے؛ چنانچہ اگر دینی اور اخلاقی اعتبار سے ٹھیک ہو تو دوستی کرے اور اگر دینی و اخلاقی اعتبار سے ٹھیک نہ ہو تو پھر اسے بچے؛ کیونکہ مزاج اور طبیعت دوسروں میں بہت ہی جلدی اثر انداز ہوتی ہیں"

البتہ غیر مسلموں کے گھروں میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ جہاں نماز ادا کی جا رہی ہے وہ جگہ پاک صاف ہو اور ایسی تصاویر وہاں آویزاں نہ ہو جن کی مشرکین تعظیم کرتے ہیں؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عام ہے: (میرے لیے زمین مسجد اور پاک قرار دی گئی ہےے، اس لیے میری امت کے کسی بھی آدمی کو جہاں بھی نماز وقت پا لے تو وہ وہیں نماز ادا کر لے)
بخاری: (323) مسلم: (810)

ابن عبد البر رحمہ اللہ "التمهيد" (5 / 227) میں کہتے ہیں:
"بخاری نے ذکر کیا ہے کہ اگر گرجا گھر میں مورتیاں نہ ہوں تو ابن عباس رضی اللہ عنہما اس میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے، اسی طرح ایوب، عبید اللہ بن عمر اور دیگر نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نافع  ، عمر رضی اللہ عنہ کے غلام  اسلم سے بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ  جس وقت شام تشریف لائے تو  عیسائیوں کے ایک بڑے  معتبر شخص نے کھانا تیار کروایا اور عمر رضی اللہ عنہ کی کھانے کی دعوت دی اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: "ہم تمہارے گرجا گھروں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے اور نہ ہی نماز پڑھتے ہیں کہ یہاں پر تصاویر اور مورتیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں" چنانچہ عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے گرجا گھروں میں نماز کی ادائیگی کو  مورتیوں کی وجہ سے ہی مکروہ سمجھا" انتہی

لہذا اگر جس جگہ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں وہ مورتیوں سے خالی ہے اور جگہ بھی پاک صاف ہے تو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب