پہلا اصول:
کرایہ داری (اجارہ) کا معاہدہ شرعاً لازم اور بائن ہوتا ہے۔ اس لیے فریقین میں سے کوئی ایک اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتا، البتہ اگر فریقین راضی ہوں تو فسخ ہو سکتا ہے، پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’الموسوعۃ الفقهيۃ‘‘ (1/253) میں ہے:
’’جمہور فقہاء کے نزدیک اجارہ کا عقد لازم ہوتا ہے، اس لیے فریقین میں سے کوئی بھی اکیلا اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا، سوائے ایسی صورتوں کے جن کی وجہ سے لازم معاہدے منسوخ ہو جاتے ہیں، جیسے کسی عیب کا ظاہر ہو جانا، یا منفعت کی جگہ کا ختم ہو جانا۔ ان حضرات نے اس پر یہ آیت بطور دلیل پیش کی: أَوْفُوا بِالْعُقُودِ یعنی ’’عقود (معاہدوں) کو پورا کرو‘‘۔‘‘
اسی کتاب میں (1/272) پر یہ بھی ہے کہ:
’’جمہور فقہاء کا کہنا ہے کہ عذر کی بنیاد پر اجارہ کو یک طرفہ فسخ کرنا درست نہیں، کیونکہ اجارہ بیع کی دو قسموں میں سے ایک ہے، اور چونکہ بیع کا عقد لازم ہوتا ہے، اس لیے اجارہ کا معاہدہ بھی لازم ہو گا۔ جب فریقین نے باہمی رضامندی سے معاہدہ کیا ہو تو وہ باہمی رضامندی سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔‘‘
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ’’ المغنی ‘‘: ( 5/260) میں فرماتے ہیں :
’’اجارہ ایک لازم معاہدہ ہے، جو مؤجر [مالک ] کو کرایہ اور مستأجر [کرایہ دار] کو حصولِ منفعت کا حق دیتا ہے۔
پس اگر مستأجر (کرایہ دار) مدت ختم ہونے سے پہلے ہی معاہدہ منسوخ کر دے اور خود اپنی مرضی سے مکان خالی کر دے، تو اس سے اجارہ ختم نہیں ہو گا، اور وہ کرایہ اس کے ذمہ لازم رہے گا۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز خرید کر قبضہ میں لے لی جائے، پھر اسے استعمال نہ کیا جائے تو بھی وہ اس کی ملکیت میں باقی رہتی ہے۔
اثرم کہتے ہیں:
میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا: ایک شخص نے اونٹ کرائے پر لیا، جب وہ مدینہ پہنچا تو اونٹ کے مالک سے کہا: ’’میرا معاہدہ منسوخ کر دو‘‘۔
امام احمد نے فرمایا: ’’اسے یہ حق حاصل نہیں، اب کرایہ اس کے ذمہ لازم ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: اگر مدینہ میں وہ شخص بیمار ہو جائے؟
تو بھی امام احمد نے فسخ کی اجازت نہیں دی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک لازم معاہدہ ہے، اور فریقین میں سے کسی کو یکطرفہ فسخ کا اختیار نہیں۔
اگر وہ کرایہ داری کا معاہدہ یک طرفہ فسخ کر بھی دے، تب بھی اس پر واجب عوض (کرایہ) ساقط نہیں ہو گا، جیسے بیع میں ہوتا ہے۔‘‘ ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب اجارہ درست طور پر مکمل ہو جائے، تو وہ دونوں فریقین کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔‘‘ ختم شد
الفتاویٰ الکبریٰ (5/407)
اس بنا پر:
اگر مالک مکان معاہدہ فسخ کرنے پر راضی ہو جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے حق سے دستبرداری اختیار کر لی، اور ایسی صورت میں آپ پر کوئی کرایہ لازم نہیں رہتا۔
لیکن اگر مالک فسخ پر راضی نہ ہو اور معاہدے کی پابندی پر اصرار کرے، تو اسے یہ حق حاصل ہے، اور ایسی صورت میں آپ پر باقی مدت کا کرایہ لازم ہو گا۔
البتہ آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اس فلیٹ میں قیام کریں یا کسی اور کو وہ فلیٹ کرائے پر دے دیں جو اسی طرح اس سے فائدہ اٹھائے، جیسا کہ آپ خود کرتے، یہاں تک کہ معاہدہ پورا ہو جائے۔
واللہ اعلم