جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

جنسی قوت بڑھانے والی ادویات اور انہیں استعمال کرنے کا حکم

سوال

قوت باہ بڑھانے والی ادویات وغیرہ کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟ مجھے کسی نے بتلایا ہے کہ یہ حرام نہیں ہے؛ کیونکہ یہ کوئی نشہ آور چیز نہیں ہوتی، چونکہ یہ نقصان دہ نہیں ہوتیں اس لیے انہیں استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ مجھے بعض اطبا نے بتلایا ہے کہ : انہیں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ جسم کو نقصان نہیں پہنچاتیں، بشرطیکہ ایک خوراک 20 مل سے زیادہ نہ ہو، تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جنسی قوت بڑھانے والی ادویات کے نقصانات کی وضاحت:

طبی شعبے سے منسلک افراد جنسی معذوری  کی اکثر صورتوں کا علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس کیلیے انہوں نے بہت سے مفید طریقے اور ذرائع دریافت کئے ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

-        ایسی ادویہ کا استعمال جو گولیوں کی صورت میں منہ کے ذریعے تناول کی جاتی ہیں جیسے ویاگرا اور سیالس۔

-        شریانوں کو کھول دینے والے ٹیکے لگا کر علاج کرنا۔

-        پیشاب کے راستے چھوٹے چھوٹے شافے  آلہ تناسل میں داخل کر کے علاج کرنا۔

-        آپریشن کے ذریعے معاون آلات  کی مدد سے علاج کرنا، یہ طریقہ اسی وقت اپنایا جاتا ہے جب سابقہ طریقے ناکام ہو جائیں۔

علاج کے مذکورہ بالا طریقوں میں سے کچھ کے مضر اثرات ہیں، خاص طور پر ایسی جنسی ادویات جو کھائی جاتی ہیں اور اسی طرح معاون آلات کے بھی مضر اثرات ہیں۔

لہذا ایسی تمام جنسی ادویات جو گولیوں کی شکل میں کھائی  جاتی ہیں ان  سے سر درد، ناک کی بندش،  معدے میں درد کے ساتھ بد ہضمی، روشنی سے بہت زیادہ الرجی، کمر کے نچلے حصے  یا پٹھوں میں مختلف قسم کے درد۔

ایسے ہی وہ مریض جنہیں شریانوں کے بند ہونے کی شکایت ہے وہ اپنے معالج سے مشورے کے بغیر  یہ ادویات استعمال کریں تو انہیں  شدید نقصان پہنچ سکتا ہے؛ کیونکہ ایسے مریضوں کی اکثریت  نائٹریٹ (Nitrates) استعمال کرتی ہے  اور اس دوا کا ویاگرا کے ساتھ شدید قسم کا تعامل ہوتا ہے،  ہوتا یوں ہے کہ ویاگرا اس دوا کو مریض کے جسم میں تحلیل ہونے سے روکتی ہے  جس کی وجہ سے فشار خون یعنی بلڈ پریشر بہت زیادہ کم ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار موت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔

دوم:

جنسی قوت بڑھانے والی ادویات استعمال کرنے کا حکم:

قوت باہ بڑھنے والی ادویات دو حالات میں استعمال کی جاتی ہیں:

1- کسی ضرورت کی بنا پر  استعمال کریں، مثلاً: بڑھاپے، بیماری کے علاج  کیلیے تو ایسی صورت میں ان کا استعمال مباح اور جائز ہو گا؛ کیونکہ اسلام مسلمانوں کو علاج معالجے کی ترغیب دیتا ہے اور علاج کیلیے اسباب  اور وسائل اپنانے کا کہتا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (علاج کرواؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی نے کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کا علاج نہ ہو، ما سوائے بڑھاپے کے) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے، نیز یہ روایت ابو داود اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے۔

کبھی ایسی ادویات کا استعمال مستحب بھی ہو سکتا ہے وہ اس طرح کہ ان ادویات کے استعمال سے  افزائش نسل کا امکان ہو اور شریعت افزائش نسل کی ترغیب دیتی ہے، افزائش نسل کی ترغیب دینے سے متعلق نصوص میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان  ہے:
( فَالآَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ )
ترجمہ: پس اب  ان سے مباشرت کرو اور اللہ تعالی نے تمہارے لیے جو [اولاد] لکھ دی ہے اسے تلاش کرو۔[ البقرة:187]

ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (محبت کرنے والی  اور بچے جننے والی خاتون سے شادی کرو؛ کیونکہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کروں  گا) ابو داود اور نسائی نے اسے روایت کیا ہے اور یہ روایت صحیح ہے۔

تاہم ان ادویات کو استعمال کرتے ہوئے  ان قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا چاہیے جو اس شعبے کے ماہرین ذکر کرتے ہیں؛ اور اس شعبے سے منسلک افراد اس مسئلے میں "اہل الذکر" ہیں۔

طبی ماہرین اس معاملے جو قواعد و ضوابط ذکر کرتے ہیں وہ حسب ذیل ہے:

أ‌-     جنسی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر مریض قوت باہ بڑھانے والی ادویات  معتمد  اور ماہر طبیب کے مشورے کے ساتھ ہی استعمال کرے۔

ب‌-          قوت باہ بڑھانے والی ادویات پر ہی کلی اعتماد مت کرے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے کیلیے ادویات کا محتاج بن کر رہ جائے۔

ت‌-          ادویات کھانے میں حد سے تجاوز مت کرے؛ کیونکہ ان کی زیادہ مقدار کھانے سے بسا اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

2- دوسری حالت یہ ہے  کہ ان ادویات کو  جنسی لذت میں اضافے کیلیے استعمال کیا جائے تو پھر ایسی صورت میں ان کا حکم  بلا ضرورت قوت باہ بڑھانے والی ادویات  کے استعمال پر رونما ہونے والے نتائج پر موقوف ہو گا۔

تو اس  سلسلے میں ماہرین کہتے ہیں کہ  محض لذت بڑھانے کیلیے  صحت مند افراد ایسی ادویات استعمال کریں تو اس کے نقصانات شدید نوعیت کے ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ طبی تحقیقات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ  صحت مند  افراد کی جانب سے جنسی شہوت بڑھانے والی ادویات کا استعمال تا دیر مضر اثرات کا باعث بنتا ہے؛ کیونکہ  وقتی طور پر شہوت بھڑکانے والی ادویات کی وجہ سے  چند گھنٹوں تک  شہوت بھڑک تو جاتی ہے لیکن  پھر اس کے بعد جسم کو اس وقتی شہوت کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جو کہ جسمانی تھکان اور ناتوانی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اور یہ بات  سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ جس چیز کی وجہ سے محض نقصان ہو یا نقصان کی مقدار فائدے سے زیادہ  ہو تو شریعت  اور شرعی کلی قواعد اسے جائز قرار نہیں دیتے۔

مراقی الصعود میں ہے کہ:

والحكم ما به يجيءُ الشرع *** وأصل كل ما يضر المنع

مطلب یہ ہے کہ: حکم وہی ہے جو شریعت بیان کرے، اور کسی بھی مضر چیز کا اصل حکم ممانعت ہے ۔

یہ تمام گفتگو ایم ایس کے مقالہ  بعنوان: " النوازل في الأشربة " صفحہ (237 - 240) از مقالہ نگار: زین العابدین بن شیخ ازوین سے لی گئی ہے، جو کہ شیخ سعد بن ترکی خثلان کی نگرانی میں لکھا گیا تھا۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (79072) کا جواب ملاحظہ کریں۔

نیز یہ کہنا کہ: "شریعت کی کیا رائے ہے" اس جملے کا حکم جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (72841) میں ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب