سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ایک شخص اپنے مال کی زکاۃ متعین کر دیتا ہے لیکن وہی چیز چوری ہو جاتی ہے، تو کیا اس کا متبادل زکاۃ میں دینا لازم ہے؟

سوال

اس سال ماہ رمضان میں میرے گھر چوری ہو گئی، میرے پاس گھر میں ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ تھے، لیکن الحمد للہ اس میں سے آدھے یعنی 50 ہزار ہی چوری ہوئے ، میں نے کچھ رقم بطور زکاۃ ایک طرف رکھی ہوئی تھی ، چور نے زکاۃ کی ساری رقم بھی چوری کر لی ہے، تو کیا ایسی صورت میں مجھ پر زکاۃ فرض ہے؟ کچھ کہتے ہیں کہ: جب آپ نے رقم الگ کر دی تھی تو اب چوری ہو گئی تو آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب آپ پر دوبارہ سے زکاۃ نکالنا ضروری نہیں ہے، تو کیا ن کی یہ بات صحیح ہے؟ جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ : نہیں، آپ پر زکاۃ ادا کرنا اب بھی ضروری ہے؛ کیونکہ آپ نے زکاۃ ادا نہیں کی۔ اس لیے مہربانی کر کے میرے مسئلے کی وضاحت کر دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کا یہ نقصان پورا فرما دے، اور آپ کا چوری شدہ مال واپس لوٹا دے، نیز آپ کو اس سے بھی بہترین متبادل عطا فرمائے۔

دوم:

آپ نے زکاۃ کی رقم الگ نکال کر رکھی اور وہی رقم چوری ہو گئی تو اب آپ پر لازم ہے کہ دوبارہ زکاۃ ادا کریں؛ کیونکہ زکاۃ کی رقم مستحقین تک نہیں پہنچ پائی۔

الشیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر اس نے اپنی زکاۃ کی رقم الگ کر دی، لیکن وہ چیز مستحقِ زکاۃ کے وصول کرنے سے پہلے ہی تلف ہو گئی تو مالک کو دوبارہ زکاۃ ادا کرنا ہو گی" ختم شد
" كشاف القناع " ( 2 / 269 )

الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک آدمی پر زکاۃ واجب ہو گئی ، تو اس نے اپنی زکاۃ ایک ایسے شخص کو تھما دی جو غریبوں اور مسکینوں پر اس رقم کو تقسیم کرتا ہے، اس شخص نے وہ رقم محفوظ جگہ پر رکھی ، لیکن وہ رقم چوری ہو گئی تو کیا مالک دوبارہ سے زکاۃ ادا کرے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ شخص پوری رقم دوبارہ ادا کرے گا؛ کیونکہ یہ رقم غریبوں کی تھی اور غریبوں تک نہیں پہنچ پائی، نہ ہی غریبوں کے نمائندے تک پہنچی ہے اس لیے مالک اس رقم کا ضامن ہو گا۔ "
" مجموع فتاوی شیخ ابن عثیمین " ( 18 / 479 ، 480 )

آپ سے یہ بھی ایک بار پوچھا گیا:
آج میرا پرس چوری ہو گیا ہے اور اس پرس میں زکاۃ کے لیے مختص کردہ رقم بھی تھی ، تو کیا گم ہو جانے کی وجہ سے یا چوری ہونے کی وجہ سے زکاۃ ساقط ہو جائے گی یا مجھے دوبارہ زکاۃ ادا کرنا ہو گی؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"سائل نے جس رقم کو زکاۃ کے لیے مختص کیا تھا یہ ابھی بھی اس کی ملکیت میں تھی، اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوئی، اور نہ ہی مستحقین زکاۃ فقرا وغیرہ تک پہنچی ہے ، اس بنا پر اگر کسی شخص نے زکاۃ کے لیے رقم مختص کی اور وہ رقم چوری ہو گئی یا گم ہو گئی تو اسے دوبارہ زکاۃ ادا کرنا ہو گی۔

بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ دوبارہ زکاۃ ادا کرنے سے اللہ تعالی اس کی گم شدہ یا چوری شدہ دولت واپس لوٹا دے۔" ختم شد
" فتاوی حرم مکی" ( کیسٹ نمبر: 9 ، سال: 1413 ہجری)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب