جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کسی بڑے کو سلام کرتے ہوئے جھکنا جائز ہے؟

سوال

کسی کے احترام یا عزت افزائی کے دوران حاصل ہونے والے شرکیہ امور مجھے بہت پریشان کرتے ہیں؛ کیونکہ ہمارے رسم و رواج میں یہ بات عام ہے کہ کسی بڑے سے ملتے ہوئے جھکنا پڑتا ہے، دوسری طرف بڑے لوگ کھڑے ہو کر اپنا ہاتھ چھوٹوں کے سر پر رکھتے ہیں جو کہ ان کی جانب سے محبت کی علامت ہوتی ہے، تاہم بڑوں سے ملتے ہوئے چھوٹے اس قدر نہیں جھکتے جیسے کہ نماز میں رکوع کیلیے جھکا جاتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

عالم یا کسی اور سے ملتے ہوئے  رکوع کی حد تک یا اس سے کم جھکنا  جائز نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلام کرتے ہوئے جھکنا  ممنوع ہے جیسے کہ ترمذی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ : "صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے ملتے ہوئے جھک سکتا ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں)؛ اس کی ایک وجہ اور یہ بھی ہے کہ رکوع یا سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے کرنا جائز ہے ، اگرچہ ہم سے پہلے کی شریعتوں میں ایسا کرنا جائز تھا، جیسے کہ یوسف علیہ السلام کے قصہ میں موجود ہے:
وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ يَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ
ترجمہ: اور وہ [یوسف کے بھائی]اس  [یوسف] کیلیے سجدہ ریز ہو گئے، اس پر یوسف نے کہا: ابا! یہ میرے پہلے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہے۔[يوسف: 100]
لیکن ہماری شریعت میں سجدہ صرف اللہ تعالی کیلیے کرنا جائز ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر عجم کی طرح دوسروں کیلیے کھڑے ہونا ہی منع ہےتو  رکوع یا سجود سے ممانعت کیسی ہو گی؟اسی طرح نامکمل رکوع کی حالت بھی اسی ممانعت میں شامل ہو گی" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 1 / 377 )

اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
"بڑی عمر کے افراد یا مشایخ وغیرہ کے پاس سر جھکانا ، یا زمین کو بوسہ دینا ایسا معاملہ ہے جس کے منع ہونے کے بارے میں ائمہ کرام کے ہاں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے ؛ بلکہ کمر کو غیر اللہ کیلیے موڑنا ہی منع ہے جیسے کہ مسنداحمد وغیرہ میں ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت وہ شام سے واپس آئے  تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (معاذ! یہ کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: "اللہ کے رسول میں نے شام میں دیکھا  کہ وہاں کے لوگ اپنے پادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں اور ساتھ میں اس کی نسبت اپنے انبیائے کرام کی جانب بھی کرتے ہیں"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ جھوٹ بولتے ہیں ، اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دینا چاہتا تو سب سے پہلے بیوی کو حکم دیتا کہ خاوند کو سجدہ کرے؛ کیونکہ خاوند کا اپنی بیوی پر بہت بڑا حق ہے، معاذ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا سجدہ کرو گے؟ )اس پر معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایسا کبھی مت کرنا) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کے الفاظ فرمائے"

خلاصہ یہ ہے کہ : کسی کے سامنے قیام کرنا، نماز کی طرح بیٹھنا، رکوع یا سجدہ وغیرہ سب کچھ آسمان و زمین کے خالق اور یکتا معبود  اللہ تعالی کا حق ہےاور جو چیز اللہ کا حق ہو اسے غیر اللہ کیلیے بجا لانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جیسے کہ غیر اللہ  کی قسم اٹھانے کا معاملہ ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 27 /92 - 93)

غیر اللہ کیلیے سجدہ کرنے سے متعلق ممانعت کے بارے میں تفصیلات جاننے کیلیے سوال نمبر: (229780) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب