الحمد للہ.
اول:
انسان اپنے سسرالی رشتہ داروں کو اپنی زکاۃ دے سکتا ہے، بلکہ اگر سسرالی رشتہ دار غریب ہوں تو انہیں زکاۃ دینا دیگر غریبوں کو دینے سے افضل ہے، کیونکہ اس سے صلہ رحمی اور رشتہ داری مزید مستحکم ہوگی۔
تاہم پوتا، یا نواسہ اپنی زکاۃ دادا یا نانا کو نہیں دے سکتا، انہیں زکاۃ دینے کی صرف ایک صورت ہے کہ پوتے یا نواسے پر ان کے اخراجات لازم نہ ہوں۔
اس بارے میں مکمل تفصیلات جاننے کیلئے سوال نمبر: (81122) ، (21810) اور (125720) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
آپ اپنی نانی کی طرف سے پیش کیے جانے والے کھانے کو استعمال کر سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے یہ کھانا زکاۃ کی رقم سے تیار شدہ ہو؛ کیونکہ اہل علم کے ہاں یہ مسلمہ اصول ہے کہ: "کسی بھی چیز کی ملکیت تبدیل ہونے سے اس کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے"
اس اصول کی دلیل بخاری: (5279)ا ور مسلم : (1074) میں ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر داخل ہوئے تو ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، تاہم آپ کو روٹی اور گھر کے عام سالن کیساتھ کھانا پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(میں نے ہنڈیا میں گوشت نہیں دیکھا تھا؟)
تو گھر والوں نے بتلایا: "جی ہاں! لیکن وہ گوشت صدقے کا ہے، بریرہ پر کسی نے صدقہ کیا ہے، اور آپ صدقہ کی چیز نہیں کھاتے"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ گوشت بریرہ کیلئے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے تحفہ ہے)
چنانچہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملکیت کی تبدیلی پر ا س کے حکم کی تبدیلی فرمائی۔
لہذا اگر کوئی غریب آدمی زکاۃ وصول کرے تو یہ زکاۃ اس کی ملکیت بن جاتی ہے، اور پھر وہ زکاۃ نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ غریب آدمی اسے کہیں بھی خرچ کر سکتا ہے، یعنی اسے فروخت بھی کر سکتا ہے اور کسی کو تحفہ بھی دے سکتا ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ جب کسی چیز کے اوصاف تبدیل ہوں تو اس کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے، چنانچہ یہاں کسی فقیر کو دی گئی زکاۃ کوئی بھی مالدار آدمی اس سے خرید سکتا ہے، اسی طرح مالدار شخص غریب آدمی کی طرف سے ملنے والا کھانا بھی کھا سکتا ہے، حتی کہ سادات اور غیر سادات سب جن کیلئے زکاۃ جائز نہیں ہے سب اسے استعمال کر سکتے" انتہی
"شرح صحیح مسلم" (5/274)
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ : مال اگر زکاۃ کا ہو تو اس مال کے اس وصف کی وجہ سے یہ مال زکاۃ کے غیر مستحقین کیلئے حرام ہوگا، نہ کہ وہ مال بعینہ حرام ہے" انتہی
" فتح الباری" (5/204)
اور ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بریرہ پر صدقہ کیے گئے گوشت میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا۔۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار اور سادات سے تعلق رکھنے والا شخص فقیر کو دی گئی زکاۃ میں سے کھا سکتا ہے؛ کیونکہ اب اس کی صفت زکاۃ والی نہیں ہے" انتہی
"زاد المعاد" (5/175)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کسی چیز کا مستحق ہونے پر اسے اپنے قبضے میں لے لے، تو اب یہ چیز کسی ایسے شخص کیلئے حرام نہیں ہوگی جس کیلئے ابتدائی طور پر وصول کرنا حرام تھا۔
اس کی مثال یوں لیں کہ: ایک فقیر زکاۃ وصول کرتا ہے تو زکاۃ وصول کر کے وہ فقیر آدمی مالدار لوگوں کی دعوت بھی کر سکتا ہے، چنانچہ مالدار لوگ اس میں سے کھا سکتے ہیں؛ کیونکہ مالدار آدمی اسے بطور زکاۃ استعمال نہیں کر رہا، بلکہ وہ اسے فقیر کی طرف سے استعمال کر رہے ہیں اور فقیر آدمی کو زکاۃ کا مال مستحق ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے" انتہی
خلاصہ :
اگر فقیر کو زکاۃ دی جائے اور فقیر آگے کسی ایسے شخص کو زکاۃ کی چیز تحفہ میں دے دے جس کیلئے زکاۃ جائز نہیں ہوتی تو فقیر کا یہ تحفہ درست ہے، اور مالدار شخص کیلئے اسے بلا جھجک استعمال کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم.