الحمد للہ.
اول:
اس لین دین کو عاریتاً کا نام دینا درست نہیں ہے؛ کیونکہ عاریتاً وہ چیز دی جاتی ہے جو استعمال تو ہو لیکن باقی رہے، جیسے کہ الماری یا آلات وغیرہ استعمال کے لیے دینا، لیکن لوہا وغیرہ کسی کو اس طرح دینا کہ وہ وہی چیز نہیں بلکہ اس کا متبادل واپس کرے گا تو یہ قرض کہلاتا ہے۔
دوم:
اگر لوہے کی تمام صفات مثلاً: نوعیت، معیار، وزن اور دیگر اوصاف مقررہ ہوں تو لوہا قرض دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور یہ بھی جائز ہے کہ مقروض شخص وصول کردہ چیز سے بہتر چیز واپس کرے، بشرطیکہ بہتر چیز واپس کرنا عرف نہ ہو اور نہ ہی مشروط ہو؛ لہذا قرض دینے والا شخص مقروض پر یہ شرط نہیں لگا سکتا کہ واپس نیا لوہا ہی کرے گا؛ کیونکہ یہ قرض کے ذریعے نفع حاصل کرنے میں شامل ہو جائے گا، جو کہ سود ہے۔
لیکن اگر مقروض غیر مشروط طور پر نیا لوہا لا کر واپس کر دیتا ہے ، تو یہ اس کی طرف سے نیکی اور اچھائی ہے۔
اور اگر قرض خواہ کو علم ہو کہ مقروض -چاہے شرط نہ بھی لگائی جائے تب بھی-افضل شکل میں ہی قرض واپس کرے گا تو تب بھی راجح موقف کے مطابق اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قرض دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ بہتر چیز ہی قرض میں واپس کرتے تھے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (148458 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم