اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مانع حمل ہارمون پر مشتمل ربڑ كا رنگ استعمال كرنا

174279

تاریخ اشاعت : 03-10-2012

مشاہدات : 6262

سوال

ميرا سوال منع حمل كے جديد طريقوں سے منع حمل كے متعلق ہے، كہ اس وقت عورتيں ربڑ كا رنگ سا استعمال كرتى ہيں، جو مانع حمل ہارمونات پر مشتمل ہوتا ہے، يہ رنگ رحم ميں ركھا جاتا ہے اور اسپرم كو رحم كے اندر جانے سے روك ديتا ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى مانع حمل كے كئى ايك طريقے ہيں جو پہلے طريقہ سے مختلف ہيں ليكن وہ دونوں كے پانى كو ملانے نہيں ديتے، تو كيا يہ مذكورہ بالا جديد طريقے استعمال كرنا حلال ہيں يا حرام ؟
يہ علم ميں رہے كہ سوال في ذاتہ منع حمل كے متعلق نہيں، بلكہ منع حمل كے طريقہ جات كے متعلق ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ربڑ كے يہ مانع حمل رنگ بھى مانع حمل گولياں والا عمل ہى كرتے ہيں اور بچہ بننے ميں مانع ہوتے ہيں، اور اسپرم كو رحم كے اندر جا كر چپكنے سے روك ديتے ہيں، طبيب الويب " ويب سائٹ ميں درج ذيل عبارت لكھى گئى ہے:

" مانع حمل رنگ: يہ ايك قسم كے پلاسٹك " copolymère " كے رنگ ہيں جو دہرے ہونے قابل ہيں اور شفاف ہوتے ہيں جن كا قطر 54 ملى ميٹر ہے.

يہ رنگ عورت خود ہى اپنے رحم ميں ركھتى ہے اور تين ہفتوں تك رحم ميں رہتا ہے، ان حلقوں ميں بالكل مانع حمل گوليوں ميں موجود مادہ جيسا ہى ہارمون پايا جاتا ہے، انہيں تين ہفتوں تك رحم ميں ركھنا ممكن ہے.

ليكن اس دوران عورت اسے نكال كر دھونے اور صاف كرنے كے بعد بڑى آسانى كے ساتھ دوبارہ ركھ سكتى ہے، تين ہفتے ختم ہونے كے بعد رنگ نكال ديا جائيگا، اور اس كے بعد ايك ہفتہ تك عورت انتظار كر كے پھر نيا رنگ ليتى ہے، بالكل ايسے ہى جس طرح مانع حمل گولياں استعمال كرنے والى عورت ايك ہفتنہ انتظار كرتى ہے.

اس طريقہ كا عمل بالكل مانع حمل گوليوں والا ہے، حالانكہ يہ رنگ رحم ميں ركھا جاتا ہے، ليكن اس كى تاثير دوسرے موانع حمل جيسى نہيں بلكہ مانع حمل گوليوں كے برابر ہے، اسے رحم ميں ركھنا صرف يہى كرتا ہے كہ اس سے دوائى كا مادہ جسم ميں داخل ہو كر حمل ٹھرنے سے منع كر ديتا ہے.

يعنى يہ ربڑ كے رنگ اصل ميں حمل ٹھرنے ہى نہيں ديتے، اور رحم كے مونہہ كو اس قابل نہيں رہنے ديتا كہ مادہ رحم ميں چلا جائے، اسى طرح جھلى كے اندر يہ مادہ جا ہى نہيں سكتا " انتہى

يہ رنگ بھى بعض دوسرے مانع حمل وسائل اور طريقوں ميں اس طرح مشترك ہيں كہ رحم ميں حمل ٹھرنے ہى نہيں ديتے اور مادہ اندر نہيں جانے ديتے.

سابقہ ويب سائٹ ميں يہ بھى درج ہے كہ:

" اس رنگ كا منع حمل ميں مبدئى طريقہ يہ ہے كہ رحم كے اندر مادہ منويہ كو جا كر حمل ٹھرنے سے روكتا ہے.

تانبے كى نالى والا مانع حمل طريقہ سے رحم ميں تانبے كى بنا پر غير جرثومى ارتكاس جلن پيدا ہوتى ہے، گويا كہ رحم خود تانبے كى اس جلن كى مدافعت كرتا ہے، اس طرح اس كا قوام اور مادہ اس قابل نہيں رہتا كہ مادہ سے حمل ٹھر جائے، ليكن اس كے مقابلہ ميں يہ ربڑ كا ہارمونى رنگ اپنے اندر دوائى مادہ كو خارج كر كے رحم كے مونہہ ميں داخل ہو كر حمل ٹھرنے سے روكتا ہے.

دونوں حالتوں ميں رحم كا اندرونى حصہ مادہ منويہ سے حمل ٹھرنے كى قابلي تكو ختم كر ديتا ہے " انتہى

مانع حمل اسٹك وغيرہ استعمال كرنے كے جواز كا بيان سوال نمبر ( 22027 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

يہ ياد ركھيں كہ رحم ميں حمل ٹھرنے ہى نہ دينا اسقاط حمل شمار نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ اسقاط تو اس نطفہ كو ساقط كرنے كا نام ہے جو رحم ميں حمل ٹھر چكا ہو، ليكن يہ طريقہ تو حمل ٹھرنے ہى نہيں ديتا.

امام قرطبى رحمہ اللہ تفسير قرطبى ميں رقمطراز ہيں:

" صرف نطفہ كوئى يقينى چيز نہيں، اور اگر عورت كے رحم ميں نطفہ جمع نہ ہوا ہو تو اس كے ضائع ہونے كى صورت ميں اس سے كوئى حكم متعلق نہيں ہے، كيونكہ يہ تو بالكل اسى طرح كہ مرد كى پيٹھ ميں ہو.

ليكن اگر عورت نے اسے لوتھڑے كى شكل ميں ساقط كيا، تو ہم يقين كر ليں گے اور يہ ثابت ہوا كہ نطفہ رحم ميں ٹھر چكا تھا اور پہلى حالت سے تبديل ہو كر دوسرى شكل جس سے بچہ بنتا ہے تبديل ہوچكا تھا اسے بچہ شمار كيا جائيگا " انتہى

اور نھايۃ المحتاج ميں درج ہے:

" محب الطبرى كہتے ہيں كہ: چاليس يوم سے قبل نطفہ ساقط ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اس ميں دو قول ہيں:

اس كے ساقط ہونے سے حكم سقط اور زندہ درگور كرنے كا حكم ثابت نہيں ہوگا.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ: حمل ٹھر جانے كے بعد اسے بھى حرمت حاصل ہے، اور اسے ساقط كرنا اور خراب كرنا يا اسے نكالنے كا سبب بننا جائز نہيں.

ليكن عزل اس كے برخلاف ہے كيونكہ عزل تو عمل ٹھرنے سے قبل ہے.. ليكن اس ميں راجح قول يہى ہے كہ روح پڑ جانے يعنى حركت پيدا ہونے كے بعد مطلق طور پر اسقاط حرام ہے، اور اس سے قبل جائز ہے " انتہى

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 8 / 342 ).

سوال ميں جس اسٹك اور ربڑ كے رنگ كے بارہ ميں دريافت كيا گيا ہے اسے اسقاط حمل شمار نہيں كيا جائيگا، اس ليے كہ كچھ فقھاء كرام نے چاليس يوم سے قبل نطفہ ساقط كرنے كو جائز قرار ديا ديا ہے، جيسا ك رملى كى كلام ميں بيان بھى ہوا ہے، اور سوال نمبر ( 171943 ) ميں بيان كيا جا چكا ہے.

اس ليے بعض معاصر علماء كرام نے عزل جائز ہونے كى بنا پر مانع حمل اشياء استمال كرنا جائز قرار دي ہيں، اور چاليس يوم سے قبل نطفہ ساقط كرانا بھى جائز كہا ہے، لگتا ہے كہ رنگ اور دوسرى مانع حمل اشياء كى طرف ہى اشارہ ہے.

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" ليكن اگر كسى يقينى ضرورت كى بنا پر منع حمل كى ضرورت پيش آئے مثلا عورت كو نارمل ڈليورى نہ ہوتى ہو، بلكہ اسے بچہ پيدا كرنے كے ليے آپريشن كروانا پڑتا ہو، يا پھر خاوند اور بيوى كسى مصلحت كى خاطر كچھ دير كے ليے حمل ميں تاخير كرنا چاہيں تو پھر صحيح احاديث اور صحابہ كرام سے ثابت شدہ عزل كے جواز پر عمل كرتے ہوئے منع حمل يا تاخير ميں كوئى حرج نہيں.

اور اس ليے بھى كہ فقھاء كرام نے صراحت كے ساتھ بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ چاليس يوم سے قبل نطفہ كو باہر نكالنے كے ليے كوئى دوائى وغيرہ استعمال كرنى جائز ہے، بلكہ اگر يقينى طور پر كسى نقصان اور ضرر پيدا ہونے كى حالت ميں يقينا حمل كو روكا جائيگا " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 297 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب