جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

حج مبرور کے بارے میں ثابت شدہ فضیلت فرض اور نفل حج دونوں کیلئے ہے۔

175235

تاریخ اشاعت : 08-09-2015

مشاہدات : 10588

سوال

سوال: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے حج کرتے ہوئے بیہودگی اور گناہ کا کام نہیں کیا، تو وہ ایسے واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہو) تو کیا یہ فضیلت صرف فرض حج کے ساتھ خاص ہے؟ یا فرض کے بعد ادا کیے جانے والے نفل حج کے بارے میں بھی ہے؟ اور کیا نفل حج کرنے والا بھی ایسے ہی واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہو، اور اگر اسکا حج مبرور ہو، تو کیا اس کی جزا بھی صرف جنت ہوگی؟ یا یہ فضیلت بھی فرض حج کیساتھ خاص ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حج کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، ان میں سے چند یہ بھی ہیں:

1- بخاری: (1521)، مسلم: (1350) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جس شخص نے حج کیا اور کوئی بیہودگی اور گناہ   کا کام نہیں کیا، تو وہ ایسے واپس لوٹے گا جیسے  اس کی ماں نے اسے آج جنم  دیا ہو)

2-  بخاری: (1773) اور مسلم: (1349) میں ہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہی ہے)

3- ترمذی:  (738)اور نسائی: (2631) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حج اور عمرہ پے در پے کرو، کیونکہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو ایسے مٹاتے ہیں جیسے  بھٹی لوہے کا زنگ مٹاکر  سونے چاندی کو  خالص کرتی ہے، اور حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہی ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح سنن ترمذی" میں حسن کہا ہے۔

مذکورہ بالا احادیث میں ذکر شدہ فضیلت میں  فرض حج اور نفل دونوں شامل ہیں، کیونکہ احادیث مبارکہ کے الفاظ عام ہیں۔

اور علمائے کرام کے مطابق حج مبرور ایسا حج ہے جس میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہ ہو۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"حج مبرور ایسا حج ہے جس میں حاجی اللہ کی نافرمانی کا کوئی عمل نہ کرے، جیسے کہ اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی دلیل ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ: (جس شخص نے حج کیا اور کوئی بیہودگی اور گناہ   کا کام نہیں کیا، تو وہ ایسے واپس لوٹے گا جیسے  اس کی ماں نے اسے آج جنم  دیا ہو)" انتہی
ماخوذ از: "مجموع فتاوى ابن باز" (16/334)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب