جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

اللہ تعالی کے اسما و صفات کے معانی اور کیفیت سے متعلق مومن کا موقف

سوال

اہل سنت و الجماعت اللہ تعالی کی صفات کا اثبات بغیر کسی کیفیت، تمثیل ، تشبیہ اور تعطیل کے کرتے ہیں، اہل سنت جس وقت صفت ثابت کر رہے ہوتے ہیں کیفیت بیان کرتے ہوئے تاویل سے کام لیتے ہیں اور معنی بیان کرتے ہوئے امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مقولہ مد نظر رکھتے ہیں کہ: "استوا معلوم ہے، لیکن کیفیت مجہول ہے۔ میرے ذہن میں اشکال یہ پیدا ہوا ہے کہ اگر ہم یہی بات اللہ تعالی کی تمام صفات کے متعلق کہیں تو ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ: اللہ تعالی کے ہنسنے کا کیا مطلب ہے؟ یا اللہ تعالی کے چہرے کا کیا مطلب ہے؟ یا اللہ کی رحمت سے کیا مراد ہے؟ یا اللہ تعالی کی پنڈلی سے کیا مراد ہے۔ تو کیا ہم پر یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ان تمام صفات کا معنی ایسے جانیں جیسے اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو، تا کہ مفوضہ میں شامل نہ ہوں!؟ مسئلہ یہ ہے کہ عرب علمائے کرام جب ان کا معنی بیان کرتے ہیں تو انہیں مخلوقات میں اس صفت کے جو لوازم نظر آتے ہیں وہی بیان کر دیتے ہیں۔ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں، یہ اعتراض خود ساختہ نظریات رکھنے والے اشعری افراد نے بھی ہمارے سامنے اٹھائے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
اہل سنت و الجماعت کیفیت کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ صفت کی کیفیت کا علم اللہ کے سپرد کرتے ہیں، اس لیے اہل سنت اللہ تعالی کی تمام صفات پر ایمان رکھتے ہیں، ان کے معانی پر بھی ایمان رکھتے ہیں، جبکہ اس کی کیفیت اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں۔

ابن ماجشون، اور احمد بن حنبل سمیت دیگر سلف صالحین رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ:
"اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی صفات وغیرہ کا ہمیں معنی تو پتہ ہے لیکن اس کی کیفیت کا علم ہمارے پاس نہیں ہے۔" ختم شد
"درء تعارض العقل والنقل" (1 /115)

ابو حفص شاہین رحمہ اللہ کے والد ابو الطیب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں ابو جعفر ترمذی رحمہ اللہ کے پاس آیا اور ان سے اس حدیث میں مذکور اللہ تعالی کے نزول کے بارے میں کسی سائل نے پوچھا کہ: نزول کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ کیا اللہ تعالی علو میں بھی باقی رہتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: نزول کا معنی پتہ ہے، لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے جبکہ اس کی کیفیت کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔ "

علامہ ذہبی ؒ کہتے ہیں: "اپنے زمانے کے بغداد کے فقیہ اور عالم نے بالکل صحیح کہا؛ کیونکہ نزول کی کیفیت کے بارے میں سوال لا یعنی سوال ہے؛ اس لیے کہ سوال تو ایسی چیز کے بارے میں ہوتا ہے جس کا لغت میں معنی معلوم نہ ہو، جبکہ نزول، کلام، سماعت، بصارت ، علم اور استوا وغیرہ کا معنی سامع کو سنتے ہی سمجھ آ جاتا ہے، چنانچہ جب یہ صفات کسی ایسی ذات کی ہوں کہ جس کی کوئی نظیر اور مثیل نہیں ہے تو پھر یہ صفات بھی اس ذات کی ایسی ہی ہوں گی کہ اس کی نظیر اور مثیل نہ ہوں، نیز اس کی کیفیت ساری انسانیت کے لیے مجہول ہیں۔" ختم شد
"العلو للعلي الغفار" (ص 213-214)

اسی طرح ابو بکر اسماعیلیؒ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی ذات عرش پر بلا کیف مستوی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات اتنی بلندی پر پہنچی کہ عرش پر مستوی ہو گئی، اب مستوی ہونے کی کیفیت ذکر نہیں کی گئی۔" ختم شد
"معارج القبول" (1 /198)

تو اہل سنت و الجماعت کا اللہ تعالی کی صفات کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان صفات کو ثابت مانتے ہیں، نیز ان صفات پر دلالت کرنے والے الفاظ کے معانی کو صفت کی اصلی حقیقت اور لغوی وضع کے مطابق مانتے ہیں۔ نیز اس صفت کی کیفیت اور ماہیت کا علم اللہ تعالی کے سپر د مانتے ہیں، ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی کوئی صفت مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں ہے نہ تو صفات میں اور نہ ہی ذات میں۔

دوم:
محترم سائل کا یہ کہنا کہ اگر ہم یہ بات کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالی کی صفت ضحک، یا چہرے کا کیا معنی ہو گا؟

اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالی کی صفت ضحک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی حقیقی طور پر ہنستا ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے، ہنسنے کا یہاں کوئی مجازی معنی نہیں کیا جائے گا ، لہذا صفت ضحک ثابت ہے لیکن اس کی کوئی تمثیل، تکییف نہیں ہو گی۔ چنانچہ ہم صفت اور اس کا معنی ثابت مانیں گے، جبکہ اس کی کیفیت اللہ کے سپرد کریں گے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہی طریقہ کار تمام صفات میں ہو گا۔

الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہم صفت ثابت مانتے ہیں، جبکہ تشبیہ کی نفی کرتے ہیں؛ کیونکہ تشبیہ مخلوق کا خاصا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ: یہ صفت اللہ تعالی نے اپنے لیے ثابت قرار دی ہے، لہذا ہم بھی اسے ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں اور تمثیل بیان کرتے ہوئے مبالغہ نہیں کرتے، نہ ہی صفت کے متعلق کوئی ایسی بات کرتے ہیں جو حق نہ ہو۔ یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ مخلوق کی صفت مخلوق کے لحاظ سے ہوتی ہے؛ لہذا صفت ضحک مخلوق کے لیے اس طرح ہوتی ہے کہ اس میں قہقہہ پایا جاتا ہے جو کہ کسی ایسی چیز کو دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے جب کوئی چیز انسان کو اچھی لگے، لیکن اللہ تعالی جیسے چاہے گا ہنسے گا، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے۔" ختم شد
"فتاوى الشيخ ابن جبرين" (63 /96)

سوم:
سائل کا یہ کہنا کہ: تو کیا ہم پر یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ان تمام صفات کا معنی ایسے جانیں جیسے اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو، تا کہ مفوضہ میں شامل نہ ہوں!؟

اس حوالے سے پہلے سوال نمبر: (138920) میں اسما و صفات کے حوالے سے تفویض کا معنی بیان کیا جا چکا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: تفویض کے دو معانی لیے جاتے ہیں: پہلا معنی: لفظ اور اس کے معنی کا اثبات اور اس کی کیفیت اللہ کو تفویض یعنی سپرد کرنا، تو تفویض کا یہ معنی صحیح ہے، اور یہی اہل سنت کا موقف ہے۔
دوسرا معنی: لفظ کا اثبات کیا جائے لیکن اس کا معنی بھی اللہ کو تفویض کیا جائے، تو یہ معنی باطل ہے۔

معنی کے اثبات کے ساتھ صفت کی حقیقت تسلیم کرنا اور صفت کی کیفیت معلوم کرنا دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (2 /376)میں ہے:
"اللہ تعالی کے لیے دو ہاتھ، دو قدم، اور انگلیاں وغیرہ جیسی کتاب و سنت میں وارد صفات کا اسی طرح اثبات واجب ہے جیسے اللہ تعالی کی ذات کے لائق ہے، اس میں کسی قسم کی تحریف، تکییف، تمثیل اور تعطیل نہ ہو، نیز یہ ماننا واجب ہے کہ یہ صفات حقیقی ہیں مجازی نہیں ہیں۔" ختم شد

چنانچہ ہم پر دونوں چیزوں میں تفریق لازم ہے کہ صفت کے معنی کا اثبات کریں اور اس پر ایمان رکھیں۔ جبکہ صفت کی کیفیت کا ہمیں ادراک ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف میں سے اجماع نقل کرنے والے متعدد اہل علم جن میں خطابی ؒ بھی شامل ہیں ، انہوں نے صفات کے بارے میں سلف کا موقف ذکر کیا کہ: ان صفات کو ان کے ظاہری معنی کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اس میں کسی قسم کی کیفیت اور تشبیہ شامل نہیں کی جائے گی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات کے بارے میں گفتگو بھی ذات کے بارے میں گفتگو کی فرع ہے، تو جو چیز ذات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مد نظر رکھی جائے گی وہی بات صفات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھی جائے گی، چنانچہ ذات کے اثبات میں وجود کا اثبات ہے کیفیت کا اثبات نہیں ہے، تو اسی طرح صفات کے باب میں صفات کے وجود کا اثبات ہے کیفیت کا نہیں، چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ : اللہ تعالی کا ہاتھ اور قوت سماعت ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہاتھ کا مطلب قدرت اور طاقت ہے، اور قوت سماعت کا مطلب علم ہے۔۔۔، یہ صفات اللہ تعالی کی صفات ہیں، ان کی نسبت اللہ تعالی کی ذات کی طرف ایسے ہی ہو گی جیسے اس کی شان کے لائق ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہر موصوف کی صفت ؛ موصوف کے مطابق ہوتی ہے، تو اس سے معلوم ہو گیا کہ علم اللہ تعالی کی ذاتی صفت ہے اور اس صفت کی خاص خصوصیتیں ہیں۔ ایسے ہی اللہ تعالی کے چہرے کی صفت ہے۔۔۔ ایسے اللہ تعالی کے "فعل" کا معاملہ ہے ۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ "الخلق" کا معنی کائنات کو عدم سے وجود بخشنا ہے، لیکن ہم اللہ تعالی کے اس فعل کی کیفیت بیان نہیں کرتے اور نہ ہی اسے اپنے افعال سے مشابہت دیتے ہیں؛ کیونکہ ہم کوئی بھی کام تب کرتے ہیں جب ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالی کو تو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے وہ غنی اور تعریف کے لائق ہے۔ ایسے ہی "ذات" کا معاملہ ہے کہ ہمیں مجموعی طور پر تو اس کا مفہوم معلوم ہے، لیکن اللہ تعالی کی ذات کسی بھی مخلوق کی مثل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں کامل ادراک بھی صرف اللہ تعالی ہی کو ہے، اللہ تعالی کی ذات کی کیفیت کسی کو بھی معلوم نہیں ہے؛ چونکہ صفات الہیہ کو اسی طرح مطلق بیان کیا گیا ہے اس لیے ان کو لازما اسی مفہوم اور معنی پر محمول کیا جائے گا۔

مومن کو ان صفات کے احکامات اور ان پر ایمان کے نتائج کا علم ہوتا ہے، اور حقیقت میں ان اسما و صفات کو بیان کر کے مومن سے مطلوب بھی یہی کچھ ہے، چنانچہ مومن یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے، اور اللہ تعالی کے علم نے ہر چیز کو اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے، قیامت کے دن ساری کی ساری زمین اور تمام آسمان اللہ تعالی کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، اہل ایمان جنت میں اللہ تعالی کے چہرے کا دیدار کریں گے اور اس سے اتنے لطف اندوز ہوں گے کہ بقیہ تمام نعمتیں اس کے مقابلے میں بالکل معمولی ہو جائیں گی۔ بالکل اسی طرح مومن کو اس بات کا یقین ہے کہ اس کا ایک رب ہے وہی خالق اور معبود ہے، لیکن اسے ان میں سے کسی بھی چیز کی ماہیت اور اصلیت کا علم نہیں ہے، بلکہ مخلوق کا علم عام طور پر ایسا ہی ہے: کہ مخلوق کسی بھی چیز کے چند پہلوؤں کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن اس کی انتہائی ماہیت تک نہیں پہنچ پاتے، بلکہ خود انسان اپنی ذات کی انتہائی ماہیت تک نہیں پہنچ سکتے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (6 /355-358)

چہارم:

سائل کا یہ کہنا کہ: " مسئلہ یہ ہے کہ عرب علمائے کرام جب ان کا معنی بیان کرتے ہیں تو انہیں مخلوقات میں اس صفت کے جو لوازم نظر آتے ہیں وہی بیان کر دیتے ہیں۔"

تو ہم یہ کہتے ہیں: عرب علمائے کرام بھی جب مخلوقات میں سے کسی صفت کا معنی بیان کرتے ہیں تو وہ وہی بیان کرتے ہیں جو وہ دیکھتے، جانتے اور سمجھتے ہیں۔ تو اللہ تعالی کی صفات کی کیفیت کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالی کی مثل تو کوئی چیز نہیں ہے، کوئی آنکھ اس کا احاطہ نہیں کر سکتی، اور نہ ہی مخلوقات اللہ تعالی کو مکمل طور پر جان سکتی ہیں!؟

بدعتی لوگوں کے شبہات سے وہی شخص بچ پاتا ہے جو سلف صالحین کے راستے پر گامزن ہو، انہی کی اقتدا کرے اور انہی کے آثار پر اکتفا کرے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب