سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

کیا عید قربان کی قربانی کا گوشت غیر مسلم پڑوسیوں کو دیا جا سکتا ہے؟

180503

تاریخ اشاعت : 01-10-2014

مشاہدات : 29729

سوال

کیا عید قربان کی قربانی کا گوشت غیر مسلم پڑوسیوں کو دیا جا سکتا ہے؟ محترم بھائی آپ میرے سوال کا جواب کتا ب وسنت کی روشنی میں مدلل طور پر دینا، میرا ایک عیسائی دوست ہے جو عید قربان کی قربانی کا گوشت مجھ سے نہیں لیتا، اور اسکا کہنا ہے کہ : انکے پاس موجود انجیل اس سے منع کرتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

غیر مسلم کو عید قربان کی قربانی کا گوشت دینا جائز ہے، اور اگر غیر مسلم آپکا رشتہ دار ، یا پڑوسی ہو، یا پھر غریب ہو تو خصوصی طور پر انہیں دینا جائز ہے۔

اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:

( لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ)

ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ [الممتحنہ: 8]

اور عید قربان پر کی جانے والی قربانی کا گوشت انہیں دینا بھی اسی احسان میں شامل ہے جس کی اللہ تعالی نے ہمیں اجازت دی ہے۔

مجاہد سے مروی ہے کہ: عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر انکے لئے ایک بکری ذبح کی گئی ، چنانچہ جب وہ تشریف لائے تو انہوں سے پوچھا: کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: (جبریل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اب اسے وارث ہی بنا دے گا)ترمذی: (1943) اسے البانی سے صحیح کہا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے کافر کو بھی کھلایا جائے۔۔۔، کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر صدقات انہیں دئے جا سکتے ہیں"انتہی

"المغنی" (9/450)

اور دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (11/424) میں ہے کہ:

" ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم معاہد کافر اور قیدی کو [عید قربان کی]قربانی کا گوشت کھلائیں، اور کافر کو غربت، یا قرابت داری، یا پڑوس، کی وجہ سے یا پھر تالیف قلبی کیلئے اسے دینا جائز ہے۔۔۔جیسا کہ الله تعالى كا عام فرمان ہے:

( لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ)

ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔[الممتحنہ: 8]

اور اس لئے کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے اسماء بنت ابو بکر رضی الله عنہا کو حکم فرمایا تھا کہ وہ اپنی والدہ کا مالی تعاون کر کے انکے ساتھ صلہ رحمی کریں، حالانکہ وہ مصالحت [صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے درمیان کا عرصہ]کے وقت مشرکہ تھیں"انتہی

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

"ایسا کافر جس کیساتھ ہماری لڑائی نہیں ہے، مثلا: جس نے ہمارے پاس پناہ لے رکھی ہو یا اسکے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو تو اسے عید قربان کی قربانی اور صدقہ سے دیا جائے گا "انتہی

"مجموع فتاوى ابن باز" (18/ 48)

مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (36376) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب