الحمد للہ.
تعلیم کے لیے جاری کیے جانے والے قرض کی تین میں سے ایک حالت ہوتی ہے:
پہلی حالت: قرض سودی نہ ہو، یعنی طالب علم کسی اضافے کے بغیر یہ قرض واپس کرے گا، تو اس حالت میں قرض لینا جائز ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ہے۔
دوسری حالت: قرض سودی ہو، مطلب کہ وصول کرنے والا طالب علم اضافے کے ساتھ یہ قرض واپس کرے گا، تو اس حالت میں قرض لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سود ہے۔
تیسری حالت: قرض بنیادی طور پر تو سودی نہ ہو، لیکن اس کی بعض صورتوں میں کوئی سودی شرط پائی جاتی ہو، مثلاً: طالب علم سے کہا جائے کہ: اگر آپ اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو یہ اسکالر شپ ہے یا اتنی ہی مقدار میں واپس کرو گے جتنی مقدار میں وصول کر رہے ہو لیکن اگر آپ پڑھائی چھوڑ دیں، یا پڑھائی میں ناکام ہو جائیں، یا مقررہ مدت میں رقم واپس نہ کر پائیں تو پھر معین اضافے کے ساتھ واپس کریں گے، تو ایسی صورت میں یہ قرض لینا جائز نہیں ہے، چاہے قرض لینے والا طالب علم کامیاب ہونے کے لیے پر عزم ہو، یا اسے اطمینان ہو کہ اضافی رقم اسے نہیں دینی پڑے گی؛ کیونکہ اس معاملے میں انسان سودی شرط کو تسلیم کر رہا ہے، اور واقعی سودی معاملے میں ملوث ہونے کا خدشہ بھی ہے کہ اگر وہ کامیاب نہ ہو سکا یا پڑھائی مکمل نہ کر سکا تو وہ سودی اضافے کے ساتھ رقم واپس کرے گا۔
اس بنا پر: آپ یہ قرض نہیں لے سکتے؛ کیونکہ اس میں سودی شرط پائی جاتی ہے، اور آپ نے خود ہی یہ بتلایا ہے کہ آپ کو اس قرض کی ضرورت بھی نہیں ہے، تو اس لیے آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ آپ سودی قرض نہ لیں۔
واللہ اعلم