اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ذو الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزے رکھنے اور نہ رکھنے کے بارے میں تطبیق

191418

تاریخ اشاعت : 28-09-2014

مشاہدات : 21320

سوال

سوال: میں نے آپکی ویب سائٹ پر متعدد ایسے فتاوی پڑھے ہیں جو ذو الحجہ کے ابتدائی عشرے میں روزے رکھنے کی ترغیب دلاتے ہیں کہ یہ سنت ہیں، لیکن میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث پڑھی ہے جسکی نص یہ ہے:[صاحب کتاب کہتے ہیں] مجھے ابو بکر بن نافع عبدی نے ،اُنہیں عبد الرحمن نے ، انہیں سفیان نے، وہ اعمش سے، وہ ابراہیم سے، وہ اسود سے، اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ [ذو الحجہ] کے روزے نہیں رکھے" اسے مسلم : (2847) نے روایت کیا ہے، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھنے کے بارے میں کچھ صحابہ کرام کو علم نہیں تھا، جن میں عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی رکھ لیا کرتے تھے، اور کبھی چھوڑ دیتے تھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ذو الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزے رکھنا مستحب ہے، اسکے جمہور علمائے کرام قائل ہیں؛ اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کے ہاں ایسا کوئی عمل نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو)صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں !؟ آپ نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! ہاں ایک شخص جو اپنے مال وجان کیساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا)بخاری: (969)، ابو داود (2438) – الفاظ ابو داود ہی کے ہیں– ، ترمذی (757) اور ابن ماجہ(1727) نے اسے روایت کیا ہے۔

بلا شبہ روزے افضل ترین اعمال میں سے ہیں، اور اس حدیث کی رُو سے روزے بھی ان دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال میں شامل ہیں ۔

جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ [ذو الحجہ ]میں روزے نہیں رکھے"، اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور اس سے معارض روایت ابو داود : (2437) میں ھُنیدہ بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے نودن ، دس محرم [عاشورا] اور ہر ماہ کے تین روزے رکھا کرتے تھے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ اسکے بارےمیں صحیح سنن ابو داود میں کہتے ہیں: "اسکی سند صحیح ہے"

علمائے کرام کے اس بارے میں متعدد اقوال ہیں:

اول: عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے علم کے مطابق بیان کیا ہے، جبکہ دیگر نے انکے بیان سے مخالفت کی ہے، [اور اصول یہ ہے کہ] جو جانتا ہو، اسے نہ جاننے والے پر حجت مانا جاتا ہے، اور ثابت کرنے والے کو نفی کرنے والے پر ترجیح ہوتی ہے۔

چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"امام احمد نے ان دو احادیث کے متعارض ہونے کے بارے میں فرمایا کہ: [روزے ] ثابت کرنے والے کو [روزوں] کی نفی کرنے والے ترجیح دی جائے گی"انتہی

" الشرح الممتع " (6 /154)

دوم: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپکے عمل پر مقدم ہوگا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث آپکا قول ہے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت آپکا عمل ہے، آپ کے قول کو ترجیح اس لئے دی جائے گی کہ ہو سکتا ہے آپکا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مختص ہو، یا آپ نے یہ عمل کسی عذر وغیرہ کی بنا پر کیا ہو۔

چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے صادر ہونے والا قول ساری امت کیلئے شریعت ہوتا ہے، جبکہ آپکی طرف سے کئے سے جانے والے عمل کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مخالفت آپ کی زندگی سے نہ ملے تو ساری امت کیلئے وہ عمل شریعت ہوگا، اور [اگر مخالفت ثابت ہو تو] یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہوگا"

http://audio.islamweb.net/audio/index.php?page=FullContent&audioid=109208

سوم: یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایا م میں روزے سفر، بیماری، مصروفیات یا کسی اور عذر کی بنا پر نہ رکھے ہوں، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی بیان کر دیا جو انہوں نے دیکھا تھا۔

چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ : "میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی [ذو الحجہ کے] عشرے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"اور ایک روایت میں ہے کہ: "آپ نے [عشرہ ذو الحجہ کے]روزے نہیں رکھے"ان دونوں روایات کو مسلم نے روایت کیا ہے، انکے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ: اسکی تاویل یہ کی جائے گی کہ انہوں نے نہیں دیکھا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہ نہ دیکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عشرہ میں روزے نہ رکھنا لازم نہیں آتا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 دنوں میں سے ایک دن عائشہ کے پاس ہوتے تھے، اور باقی ایام دیگر امہات المؤمنین کے پاس ہوتے تھے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی عشرہ ذو الحجہ کے کچھ دنوں میں روزہ رکھتے ہوں، اور کبھی پورے عشرے میں ، اور کبھی سفر، بیماری، یا کسی بھی عذر کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہوں، اس توجیہ سے تمام احادیث میں تطبیق دی جاسکتی ہے"انتہی

" المجموع " (6/441)

اور شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عشرہ ذو الحجہ میں ہر قسم کے عمل کی فضیلت پر دلالت کرنے والی احادیث پہلے گزر چکی ہیں، اور روزہ بھی انہی کے ضمن میں آتا ہے، جبکہ صحیح مسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت کہ : " میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھتے نہیں دیکھا" اسکے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ: اس سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عارضے، بیماری، یا سفر وغیرہ کی وجہ سے نہیں رکھا، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ہی نہیں رکھا ہوگا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ [عشرے میں]روزے رکھنا شرعی عمل ہے، جیسے کہ اسی باب کی حدیث میں موجود ہے، اور [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے قول پر ] عمل نہ ہونے کی وجہ سے اسکی مشروعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا"انتہی

" نيل الأوطار " (4/283)

چہارم:یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کو عمدا بھی چھوڑا ہو؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کو پسند کرتے تو اس کام کو امت پر فرض ہوجانے کے اندیشے سے چھوڑ بھی دیتے تھے، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں باجماعت تراویح ترک کر دی ، اور امت پر آسانی و مہربانی فرمائی۔

چنانچہ امام بخاری: (1128) اور مسلم: (718) میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، لیکن میں یہ نماز پڑھتی ہوں، کیونکہ آپ کسی کام پر عمل کرنے کا ارادہ ہونے کے باوجود اسے ترک کردیتے تھے کہ کہیں لوگ بھی اس پر عمل شروع کردیں، اور پھر ان پر یہ عمل فرض کر دیا جائے"انتہی

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ روزے بھی نیک اعمال میں شامل ہیں، اس پر ابو داود وغیرہ کی نقل کردہ حدیث کو متعارض نہیں کہا جائے گا، جو کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی عشرہ ذو الحجہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"کیونکہ یہاں یہ احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات کسی عمل کو چاہتے ہوئے بھی نہیں کرتے تھے کہ کہیں آپ کی امت پر یہ عمل فرض نہ ہو جائے"انتہی

" فتح الباری" (2/460)

پنجم: یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذو الحجہ کے نو روزے رکھنے والی حدیث ضعیف ہے، جو کہ دلیل نہیں بن سکتی، اس حدیث کی سند میں ھُنیدہ سے مختلف روایات نقل کی گئی ہیں، چنانچہ کچھ اسانید میں ھُنیدہ کی اپنی بیوی سے اور وہ کسی ام المؤمنین سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے۔

اور کچھ میں ھُنیدہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے براہِ راست بیان کرتا ہے۔

اور بعض میں وہ اپنی والدہ سے وہ ام سلمہ سے بیان کرتی ہیں"

دیکھیں: " نصب الرايۃ" (2/157)

بالآخر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے عموم کی وجہ سے ان دنوں میں روزے رکھنے کی شرعی حیثیت باقی رہے گی۔

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :

"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھنا نقل کیا گیا ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عشرے میں روزہ رکھنے کے عمل سے بھی زیادہ مؤکد چیز بیان کی گئی ہے؛ وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ، اور فرمایا: (اللہ کے ہاں ایسا کوئی عمل نہیں ہے جو ان دس دنوں میں کئے ہوئے اعمال سے بھی افضل ہو)صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں !؟ آپ نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! ہاں ایک شخص جو اپنے مال وجان کیساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں نکلا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ آیا)اور یہ بات سب پر عیاں ہے کہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین مقام رکھتا ہے۔

جبکہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر ا س عشرے میں روزے رکھے ہوں" تو اس بارے میں دو احادیث وارد ہیں، ایک عائشہ سے اور دوسری حفصہ رضی اللہ عنہما سے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: "میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عشرہ ذو الحجہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا"جبکہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اس عشرے کے روزے نہیں چھوڑتے تھے"اور جب کسی مسئلہ میں دو احادیث آپس میں متعارض ہوں جن میں سے ایک تردیدپر مشتمل ہو، اور دوسری تائید پر تو تائید کرنے والی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے، اسی لئے تو امام احمد نے کہا ہے کہ : "حفصہ کی حدیث تائید میں ہے، اور عائشہ کی حدیث تردید میں ہے تو تائید کرنے والی حدیث کو مقدم رکھا جائے گا"

میں آپکو ایک اصول دینا چاہتا ہوں: "جب کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کوئی سنت ثابت ہو رہی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو اپنا لو، کیونکہ اس پر عمل کرنے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یا آپکے صحابہ کرام کا اس قول پر عمل بھی تلاش کریں"اس لئے کہ اگر ہم سنت پر عمل کرنے کیلئے یہ شرط لگا دیں کہ جب تک صحابہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اسکے مطابق نہ مل جائے تو تب تک عمل نہیں کرینگے ، تو اس سے ہمیں بہت سی عبادات کو چھوڑنا پڑے گا، لیکن ہمارے پاس الفاظ موجود ہیں جو کہ ٹھوص دلیل بن کر ہم تک پہنچے ہیں اس لئے ہمارے لئے ان الفاظ نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے، چاہے گزشتہ زمانے میں لوگوں نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہے"انتہی

" لقاء الباب المفتوح " (92 /12)

مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (145046) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب