الحمد للہ.
يہ مقابلہ ہے، اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ شرعى مقابلہ ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، انہوں نے اس كى علت بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ: جھاد يا تو علم كے ساتھ ہوتا ہے، يا پھر اسلحہ كے ساتھ، اسى طرح انہوں نے اس كا استدلال درج ذيل آيت سے بھى استدلال كيا ہے:
ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب يہ فرمان بارى تعالى نازل ہوا:
الم رومى مغلوب ہو گئے، نزديك كى زمين پر اور وہ مغلوب ہونے كے بعد عنقريب چند سالوں ميں غالب آ جائينگے الروم ( 1 - 4 ).
روميوں پر فارسى غالب آ گئے تھے، اور رومى اہل كتاب ميں سے عيسائى ہيں، اور فارسى مجوسى تھے جن كى كوئى كتاب نہيں اللہ تعالى نے فرمايا:
اور اس دن مسلمان خوش ہونگے، اللہ كى مدد سے الروم ( 4 - 5 ).
كيونكہ مومن فارسيوں پر عيسائيوں كے غالب آنے كو پسند كرتے تھے، اس ليے كہ فارسيوں كے مقابلے ميں عيسائى اہل كتاب ہيں اور اسلام كے زيادہ قريب تھے، اور قريش يہ پسند كرتے تھے كہ فارسى عيسائيوں پر غلبہ حاصل كريں، اس ليے قريش كہنے لگے: روميوں كے ليے فارسيوں پر غالب آنا ممكن نہيں، كيونكہ فارسى ان سے زيادہ طاقتور ہيں، اور وہ قرآن مجيد پر ايمان نہ ركھتے تھے، تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے سات برس تك كے ليے ان كے ساتھ كچھ اونٹوں كى شرط ركھ لى، اور يہ سات برس گزر گئے، اور كوئى واقعہ پيش نہ آيا، چنانچہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گئے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مدت ميں دو برس كا اور اضافہ كردو، اور شرط ميں بھى اضافہ كر دو "
اسے ابن جرير نے تفسير ابن جرير ( 10 / 165 - 166 ) نمبر ( 27876 ) ميں نقل كيا ہے.
اس ليے كہ بضع سنين كا معنى كچھ برس ہے، اور يہ تين سے نو تك كے ليے استعمال ہوتا ہے، اس ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احتياط كا حكم ديتے ہوئے عوض اور مدت ميں اضافہ كا حكم ديا، تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے ايسا ہى كيا، اور ابھى دو برس گزرے نہ تھے كہ قافلے روميوں كى فارسيوں پر غالب ہونے كى خبر لے آئے، تو اس مسئلہ سے شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے شرعى علم كے مسائل ميں شرط ركھنے كے جواز پر استدلال كيا ہے.