الحمد للہ.
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکے چچا زاد کی مغفرت فرمائے، اور اسکے گناہوں کو معاف فرمائے، اور اپنی رحمت کے صدقے اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے۔
تمام علمائے کرام کے ہاں میت کو غسل دینا واجب کفائی ہے، اور یہ ہر مسلمان کا دوسرے مسلمانوں پر حق ہے۔
علاء الدین سمرقندی رحمہ اللہ "تحفة الفقهاء" (1/ 239) میں کہتے ہیں:
"میت کو غسل دینا واجب ہے، اس پر امت کا اجماع ہے" انتہی
چنانچہ اگر مسلمان اپنی میت کو غسل دے سکتے ہوں تو ان پر غسل دینا واجب ہوتا ہے، اس کے بعد وہ اسے کفن دے کر دفنا دیں گے۔
اور اگر غسل دینے کی کوئی صورت نہ ہو ، کیونکہ غسل دینے سے اسکا جسم بکھر سکتا ہے تو اس پر پانی بہا دیں، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو مٹی سے تیمم کروا دیں، اور جس میت کے کچھ اعضا کو غسل دینا ممکن ہو تو انہیں غسل دے دیں، یا پانی بہا دیں، اور بقیہ اعضاء کی طرف سے تیمم کروا دیا جائے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/ 402) میں کہتے ہیں:
"دیوار کے نیچے آ کر ، آگ سے جل کر، یا پانی میں ڈوب کر مرنے والے کو اگر غسل دینا ممکن ہو تو غسل دیا جائے گا، اور اگر غسل دینے سے اعضاء کے بکھرنے کا اندیشہ ہو تو غسل نہیں دیا جائے گا، بلکہ ممکن ہو تو تیمم کروایا جائے گا،[میت کیلئے تیمم ]بالکل اسی زندہ شخص کی طرح [جائز ہے]جس کیلئے پانی کا استعمال مضر ہے، اور اگر میت کو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے غسل دینا ممکن نہ ہو تب بھی تیمم کروایا جائے گا، اور اگر میت کے کچھ حصے کو غسل دینا ممکن ہو اور کچھ کو ممکن نہ ہو تو قدر امکان اعضا کو غسل دے دیا جائے گا، اور باقی کو تیمم کروایا جائے گا، جیسے زندہ کیساتھ کرتے ہیں" انتہی
سوال نمبر: (154635) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
ہم نے جو میت کو غسل یا تیمم کروانے کا ذکر کیا ہے، اس کا وقت اب گزر چکا ہے، چنانچہ اگر آپ نے جو کچھ کیا یہ حکم شرعی سے لا علمی کی بنا پر کیا تھا تو آپ پر اس معاملے میں جلد بازی کرنے کی وجہ سے استغفار لازم آئے گا، کہ آپ نے اس معاملے کیلئے اہل علم سے رجوع نہیں کیا، اور پیش آنیوالے مسائل کا حکم جاننے کیلئے آپ نے کوشش نہیں کی، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اگر تمہیں علم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو۔ [الانبیاء: 7]
واللہ اعلم.