بدھ 6 ربیع الثانی 1446 - 9 اکتوبر 2024
اردو

اگر امام کی قراءت صحیح نہ ہو تو جماعت شروع ہونے کے بعد امام کو پیچھے کر کے کسی دوسرے کو آگے کرنا جائز ہے؟

197281

تاریخ اشاعت : 04-03-2017

مشاہدات : 11830

سوال

ایک غیر عرب آدمی نماز کی امامت کیلیے آگے ہو گیا، وہ قرآن مجید کی قراءت صحیح انداز سے نہیں کر سکتا تھا، اس کی آواز بھی اچھی نہیں ہے، یہ واضح رہے کہ مسجد میں امامت کے مستحق اس سے کہیں بڑے افراد موجود ہیں جو قرآن کے حافظ بھی ہیں اور ان کی آواز بھی اچھی ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں نماز شروع کرنے کے بعد ہی معلوم ہوا کہ وہ امامت کے اہل نہیں ہے۔
تو کیا ایسے شخص کو دورانِ نماز پیچھے ہٹا کر امامت کے مستحق فرد کو آگے کرنا جائز ہے؟ اور اگر میں نے عملی طور پر ایسے شخص کو پیچھے ہٹا دیا تو کیا مجھے اس کا گناہ ہو گا؟ اور میرے اس گناہ کا کفارہ کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

امامت کیلیے اسی شخص کو آگے کیا جائے جو قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو؛ کیونکہ صحیح مسلم: (673) میں ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جماعت کی امامت ان میں سے سب سے اچھا قرآن مجید کا قاری کروائے، اگر سب قرآن مجید کی قراءت میں برابر ہوں تو سب سے زیادہ سنت کو جاننے والا امامت کروائے ، اگر وہ سب سنت کے علم میں برابر ہوں تو سب سے پہلے ہجرت کرنے والا امامت کروائے، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو عمر میں سب سے بڑا امامت کروائے، کوئی شخص بھی اجازت کے بغیر حاکم کا امام نہ بنے اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اجازت کے بغیر بیٹھے)

اس حدیث میں اچھے قاری سے مراد یہ ہے کہ: جسے قرآن مجید اچھی طرح یاد ہو اور اسے صحیح انداز سے پڑھتا بھی ہو۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (132985)  کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

جب نمازی کسی ایک آدمی کو نماز پڑھانے کے لئے آگے کریں اور وہ نماز پڑھانا شروع کر دے ، تو کسی بھی مقتدی کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ اسے کھینچ کر پیچھے کر دے  اور کسی دوسرے کو آگے کرے یا خود ہی آگے ہو جائے، بشرطیکہ وہ امام صحیح انداز سے سورت فاتحہ پڑھ سکتا ہو، یا پڑھنے میں کوئی ایسی غلطی نہ کرے جس سے معنی تبدیل ہو؛ کیونکہ ایسے شخص کی امامت صحیح ہے، لہذا جس شخص کی امامت صحیح ہو اسے امامت سے ہٹانا امامت کے مقام اور مرتبے کے ساتھ زیادتی ہے، نیز اس شخص کے اور بطور امام اس  کے حقوق کی پامالی ہے، نیز ایسا کرنے پر انتشار ، اختلاف اور بے چینی پھیلے گی، جس سے تمام لوگوں کی نماز خراب ہو گی، تمام لوگوں کے ذہن دورانِ نماز منتشر ہوں گے، اور نماز کی ادائیگی میں خشوع و خضوع اور دھیان قائم نہیں رہے گا۔

سوم:

اگر یہ امام سورت فاتحہ کی قراءت صحیح انداز سے نہیں کر سکتا، اور ایسی غلطیاں کرتا ہے جس سے معنی تبدیل ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں:

 اگر امام میں قراءت صحیح کرنے کی صلاحیت موجود ہو لیکن ادائیگی کی اصلاح کیلیے اگر کسی کے لقمہ دینے  پر بھی اصلاح نہ کرے اور غلط ہی پڑھے  -یہ صورت شاذ و نادر ہی پیدا ہوتی ہے-تو ایسی صورت میں اس کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی حضرات کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اسے ہٹا کر کسی دوسرے کو نماز کیلیے آگے کر دیں ، یا مقتدی خود آگے ہو جائے، لیکن اس کیلیے شرط یہ ہے کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو، چنانچہ اگر امام کو پیچھے ہٹانے سے فتنہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو مقتدی کیلیے یہ جائز ہے کہ وہ پیچھے کھڑا رہے لیکن جماعت کی نیت توڑ دے اور تنہا نماز ادا کر لے۔

لیکن اگر کسی کے لقمہ دینے کے باوجود وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، جیسے کہ کوئی توتلا ہے، یا ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے کی اسے عادت ہے، تو راجح موقف کے مطابق ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہو گی، جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (146489) کے جواب میں تفصیل گزر چکی ہے۔

لہذا ایسی صورت میں اس امام کو پیچھے ہٹا کر کسی دوسرے کو آگے کرنا جائز نہیں ہے، تاہم آئندہ اسے امام نہ بنایا جائے۔

نمازیوں کو چاہیے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے امامت کیلیے اسی کو آگے کریں جو امامت کا حقدار ہو اور حاضرین میں سے امامت کے لائق  ہو۔

لیکن امام کو صرف اس بنا پر پیچھے ہٹانا  اور کسی دوسرے کو آگے کرنا کہ اس کی آواز اچھی نہیں ہے تو یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر:  (152929) کا جواب ملاحظہ فرمائیں

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب