الحمد للہ.
پہلی بات:
کسی محتاج آدمی کیلئے زکاۃ کے مال سے گاڑی کی خریداری اصل میں اس مسئلہ کے تحت ہے کہ "محتاج آدمی کو کس قدر زکاۃ کافی ہوگی ؟"چنانچہ جنہوں نے یہ سمجھا کہ جس مقدار سے ایک سال کی ضروریات پوری ہو جائیں-یہ جمہور کا موقف ہے- ان کے ہاں زکاۃ کی رقم سے کار کی خریداری ممنوع ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر کار کی قیمت سالانہ خرچے سے زیادہ ہوتی ہے، اور فقیر آدمی کی ضرورت ٹیکسی سے پوری ہوسکتی ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر فقیر کے پاس کھانے ، پینے، رہائش، اور نکاح کیلئے ضرورت کی تمام اشیاء ہیں لیکن اسے کار کی ضرورت ہے، تو ہم اسے اتنا کرایہ دینگے جس سے وہ ٹیکسی کی اجرت دے سکے، اسے کار خرید کر نہیں دینگے؛ اس لئے کہ کار کی خریداری میں خطیر رقم صرف ہوگی، اور یہ رقم کسی دوسرے محتاج کو دی جا سکتی ہے"انتہی
" الشرح الممتع " (6/221)
اور جنہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیشہ کیلئے جو رقم کفایت کرےاتنی مقدار میں فقیر کو زکاۃ کی مد میں سے دیا جاسکتا ہے، - یہ شوافع کاموقف ہے، اور حنابلہ سے ایک روایت ہے-تو ان کے ہاں زکاۃ کی رقم سے فقیر آدمی کیلئے کار کی خریداری جائز ہے۔
ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔، یہ تمام آثار اس بات کی دلیل ہیں کہ ضرورت مند حضرات کو زکاۃ سے دینے کی کوئی حد بندی نہیں ہےکہ مسلمانوں پر اس سے تجاوز کرنا جائز نہ ہو، چاہے جسے زکاۃ دی جارہی ہے کہ وہ چٹّی بھرنے والوں میں سے نہ بھی ہو، مزید برآں اس میں محبت اور فضیلت بھی ہے، بشرطیکہ دینے والے کا یہی نظریہ ہو، خواہش پرستی اور گروہ بندی نہ ہو، مثال کے طور پرایک صاحبِ ثروت شخص نے فقیر اور مسکین مسلم گھرانے کو دیکھا، جنکے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں تھا، تو اس نے اپنی زکاۃ کے مال سے انکے لئے سردی، گرمی سے بچاؤ کیلئے ایک مکان خرید دیا، تو اس پرفرض زکاۃ اس سے ادا ہوجائے گی، اور ساتھ ساتھ وہ محسن بھی شمار ہوگا"انتہی
کچھ تبدیلی کے ساتھ از:" الأموال " (ص/750)
اسی طرح سوال نمبر: ( 111884 ) کے جواب میں یہ بات گزر چکی ہے کہ مکان کی تعمیر کیلئے زکاۃ دینے کا کیا حکم ہے؟اور اس میں بھی اسی طرح اختلاف ہے جیسے ہمارے اِس مسئلہ میں ہے، لہذا اس سوال کو دیکھنا بھی مناسب ہوگا۔
دوسری بات:
زکاۃ کی رقم سے فقیر کیلئے کار کی خریداری ممنوع ہونے کی صورت میں کچھ مسائل کو استثناء حاصل ہے:
پہلا مسئلہ:
ایک شخص پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کرسکتا، اور نہ ہی اسکے لئے ٹیکسی کرایہ پر لی جاسکتی ہے، جیسے کہ معذور اور بیمار افرادجن کیلئے خاص گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو ایسے افراد کو انکےلئے مناسب سواری خرید کر دی جاسکتی ہے؛ تا کہ انکے لئے زندگی میں کوئی تنگی نہ ہو، بلکہ اس صورت کو زکاۃ کی مد سے فقیر کیلئے سالانہ خرچے سے زیادہ دینے کی ممانعت میں بھی استثناء حاصل ہوگا۔
دوسرا مسئلہ:
اگر کار کسی شخص کا ذریعہ معاش ہو، تو اسے زکاۃ سے خرید کر دینا جائز ہے؛ کیونکہ اس طرح سے وہ اپنے ذریعہ معاش کے باعث خود کفیل ہوسکتا ہے۔
" الموسوعة الفقهية " (17/179) میں ہے کہ :
"اگر کسی پیشے کا ماہر ہو ، اور اسے کچھ آلات کی ضرورت ہو، تو اسے زکاۃ کی مد میں سے اِن آلات کی قیمت دے دی جائے گی چاہے جتنی زیادہ ہو" انتہی
شیخ خالد المشیقح حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر گاڑی کو سامان نقل و حمل کیلئے استعمال کر کے اپنے گھر کا خرچہ چلاتا ہے تو جیسے ہم بتلا چکے ہیں کہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو مستثنی قرار دیا ہے، اور اگر اس گاڑی کو محض سواری کیلئے استعمال کرنا ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ اسے گاڑی کی خریداری کیلئے زکاۃ سے رقم دیں؛ اس لئے کہ وہ زکاۃ میں سے اتنی رقم لے سکتا ہے جس سے ٹیکسی کی اجرت ادا کرسکے" انتہی۔
ماخوذ از: "ویب سائٹ شیخ خالد المشیقح"
تیسرا مسئلہ:
اگر کسی محتاج شخص نے قرض اٹھا کر گاڑی خرید لی، اور پھر اس قرض کو نہ چکا سکا، اور اس کیلئے قرض ادا کرنا مشکل ہوگیا، تو ایسے شخص کو زکاۃ میں سے دیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ جو گاڑی اس نے خریدی تھی وہ اسکی حیثیت کے مطابق ہو، اسکی حیثیت سے زیادہ نہ ہو۔
اس بارے میں شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گاڑی ضروریات زندگی میں سے نہیں ہے، کیونکہ آنے جانے کیلئے بسیں اور ٹیکسیاں موجود ہیں، لیکن اگر کسی نے فوری یا طویل المیعاد قرضہ کے ذریعہ گاڑی خرید لی، اور پھر اس قرضہ کی ادائیگی نہ کر سکا تو اس کو زکاۃ میں سے دینا جائز ہوگا، کیونکہ اسے چٹّی اٹھانے والوں میں شمار کیا جائے گا، اور اسے اپنے ذمہ قرض کی ادائیگی کی ضرورت بھی ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جس نے ایک مکان خریدا اور اسکی مکمل یا جزئی قیمت ادا نہ کر پایا تو ایسے شخص کیلئے زکاۃ لینا جائز ہو جائے گا، واللہ اعلم، اللہ تعالی محمد ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں اور سلامتیں نازل فرمائے" انتہی
ماخوذ از: (شیخ ابن جبرین ویب سائٹ)
اسی طرح شیخ خالد المشیقح حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر اس فقیر نے گاڑی خریدی اور وہ اس کیلئے چٹّی بن گئی بشرطیکہ اس نے گاڑی اپنی حیثیت کے مطابق خریدی ہو تو ایسی حالت میں اسے زکاۃ دے دینگے؛ کیونکہ وہ اب چٹّی والوں میں شمار ہوگا" انتہی
ماخوذ از: (شیخ خالد المشیقح ویب سائٹ)
تیسری بات:
ملکیتی اشیاء کی انشورنس عام طور پر تجارتی حرام انشورنس میں شمار ہوتی ہیں، اور پہلے تجارتی انشورنس کی حرمت پر بات ہماری ویب سائٹ پر سوال نمبر (156877)اور (130761)کے جواب میں گزر چکی ہے۔
چنانچہ گاڑی کی انشورنس کیلئے زکاۃ کی ادائیگی کیلئے دیکھنا پڑے گا: اگر آدمی انشورنس کیلئے مجبور ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں تو ہم اسے فقیر ہونے کی وجہ سے زکاۃ میں سے دے دینگے، اور ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ یہ رقم گاڑی کی انشورنس میں استعمال کرے؛ کیونکہ اس حالت میں اس کیلئے انشورنس کروانا جائز ہے، اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔
ہاں اگر انشورنس کروانا اسکے لئے اختیاری ہو تو اس حالت میں انشورنس کیلئے زکاۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہوگا، اسکی وجہ یہ ہے کہ تجارتی انشورنس اصل میں حرام ہے، اور انشورنس کروانا ضروری بھی نہیں ہے، چنانچہ حرام کام پر اسکی مدد نہیں کی جائے گی۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص گناہ کے کام کی وجہ سے مقروض ہوگیا، جیسے شراب نوشی، یا ڈاکہ زنی کیلئے سفر وغیرہ تو اسے زکاۃ میں سے دینا جائز نہیں ، الاّ کہ وہ توبہ کرلے، کیونکہ اس صورت میں گناہ کیلئے اسکی مدد تصور ہوگا"انتہی
" كشاف القناع " (2/288)
مزید معلومات کیلئے سوال نمبر: (129689) کا جواب ملاحظہ کریں۔
خلاصہ کلام:
جمہور کے موقف کے مطابق فقیر کیلئے گاڑی کی خریداری میں زکاۃ صرف نہیں کی جاسکتی، اور دوسرا موقف جواز کا ہے، چنانچہ اگر جمہور کی رائے اپنالی جائے تو اختلاف سے بچا جاسکتا ہے، اور یہی محتاط بھی ہے۔
واللہ اعلم .