الحمد للہ.
معتبر اہل علم ميں سے كسى نے بھى يہ بيان نہيں كيا كہ اگر عورت حيض ميں ركھا جانا والا كپڑا دوبارہ استعمال نہيں كرنا چاہتى تو اسے پھينكنے سے قبل دھوئے، بلكہ صحابيات كے فعل سے ظاہر يہ ہوتا ہے وہ ان كپڑوں كو دھويا نہيں كرتى تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى اس كا علم تھا، ليكن اس كے باوجود يہ ثابت نہيں كہ آپ نے انہيں ايسا كرنا سے منع فرمايا ہو.
سنن اربعہ ميں ترمذى وغيرہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحابہ كرام نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم بئر بضاعۃ سے وضوء كر ليا كريں ؟ يہ وہ كنواں تھا جس ميں حيض والى كپڑے اور كتوں كا گوشت اور بدبودار اشياء پھينكى جاتى تھيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
يقينا پانى پاك ہے اسے كوئى چيز نجس نہيں كرتى "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 61 ) يہ حديث صحيح ہے، امام احمد اور يحيى بن معين اور ابن خزيمہ اور ابن تيميہ وغيرہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
حيض: حاء پر كسرہ يعنى زير اور ياء پر فتحہ يعنى زبر كے ساتھ يہ حيضۃ ( حاء كے كسرہ اور ياء پر جزم كے ساتھ ) كى جمع ہے اور اس كا معنى وہ كپڑا ہے جو حيض كے خون كے ليے باندھا جائے، جيسا كہ مباركپورى رحمہ اللہ نے ترمذى كى شرح ميں اس حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھا ہے.
اس سے يہ ظاہر ہوا كہ وہ يہ كپڑے خون ميں لتھڑے ہوئے ہى اس كنويں ميں پھينكا كرتى تھيں، كيونكہ اگر ايسا نہ ہوتا تو صحابہ كرام اس كنويں سے جہاں يہ كپڑے پھينكے جاتے تھے طہارت كرنے سے كراہت نہ كرتے.
چنانچہ آپ كى سہيلياں جو كچھ بيان كر رہى ہيں اس كى كوئى اساس اور اصل نہيں اور نہ ہى ان كى كلام صحيح ہے، بلكہ يہ ان خرافات اور بے ہودہ باتوں ميں شامل ہے جو بغير علم كہى جاتى ہيں.
عام لوگوں ميں اس طرح كى باتيں بہت ہى زيادہ معروف ہيں، اس ليے اس طرح كى باتيں سنتے وقت دليل ضرور مانگنى چاہيے، اور پھر اہل علم سے بھى پوچھا جائے، اور كتب كو بھى ديكھا جائے تا كہ اس طرح كى خرافات كا رد ہو سكے اور لوگوں كو اس سے بچانا ممكن ہو.
مسلمان شخص كو شيطان سے بچنے كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت اور ذكر و اذكار كثرت سے كرنے چاہيں، اور شرعى امور پر سختى سے كاربند رہنا چاہيے، اور اس كے ساتھ ساتھ ايسے قصے كہانيوں سے اجتناب كرنا اور دور رہنا چاہيے جو ثابت ہى نہيں.
واللہ اعلم .