ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

اپنی بھائیوں کی شادی کیلیے اخراجات اٹھائے تو کیا والد اپنے ترکے میں سے کچھ اس کے نام کروا سکتا ہے؟

سوال

میں ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں جس نے اپنی چار بہنوں کی شادیوں میں اپنے والد کی اس لیے مدد کی تھی کہ والد اپنی ملکیت میں موجود چیزوں کو فروخت نہ کرے ، تو کیا والد اپنی ملکیت میں موجود کچھ چیزیں اس کے نام کر سکتا ہے؟ یا پھر بہنوں کا اس کیلیے راضی ہونا ضروری ہے؟ یا بہنوں کی رضا مندی کے بغیر ہی اس کے نام کچھ کروا سکتا ہے؟
اور اگر بہنیں اپنے بھائی کے نام کسی بھی چیز کے کروانے پر راضی نہ ہوں اور والد پھر بھی اس کے نام کچھ کروا دے تو کیا والد پر اس صورت میں کوئی گناہ ہوگا؟
اور اگر والد اپنے بیٹے کے نام کچھ لکھنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تو والد کا ترکہ سب ورثا کا ترکہ شمار ہوگا؟ یا بیٹا اپنی بہنوں پر کیے ہوئے خرچے کو لے گا اور باقی وراثت کی طرح سب ورثا میں تقسیم کر دیا جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بھائی نے اپنی بہنوں کی شادی کیلیے جو کچھ بھی کیا یقینی طور پر نیکی اور اطاعت کا کام تھا اسے اس پر اجر ضرور ملے گا۔

اور اس بھائی کے اس اقدام کے بارے میں دو احتمال ہیں:

اول:

بھائی نے یہ سب کچھ اپنے  والد کے ساتھ تعاون اور بہنوں کی شادی کیلیے مدد کے طور پر کیا  ہو یا اپنی بہنوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہوئے کیا ہو تو اس حالت میں بیٹا اپنے والد یا بہنوں سے کچھ بھی مطالبہ نہیں کر سکتا کہ جو کچھ اس نے شادی کیلیے کیا تھا اب اس کا بدلہ چکانے کا مطالبہ کرے، چاہے یہ مطالبہ والد سے براہ راست ہو یا والد کی وفات کے بعد ان کے ترکے سے کرے؛ کیونکہ بھائی نے شادی کی تیاری میں اپنے والد کا ہاتھ اس لیے بٹایا تھا کہ نیکی اور احسان ہوگا نہ کہ قرض یا ادھار ، یا بعد میں اس کا معاوضہ لینے کیلیے اس نے ایسا کیا؛ چنانچہ صحیح بخاری : (2589) اور مسلم: (1622) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے ہبہ کو واپس لینے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کتا قے کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے)

اور نہ ہی والد اسے کوئی چیز اس نیکی کے بدلے میں دے سکتا ہے؛ کیونکہ بیٹے نے یہ کام بطور احسان کیا تھا ، اور احسان کرنے کی صورت میں اسے دیگر بہن بھائیوں پر ترجیح دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو عطیہ اور ہدیہ دیتے ہوئے سب میں برابری کرے اور کسی کو دوسرے بہن بھائیوں پر ترجیح مت دے، چنانچہ اگر کوئی انسان اپنی کچھ اولاد کو تو ہدیہ دے لیکن کچھ کو نہ دے یا سب کو دیتے ہوئے برابری نہ کرے تو اس پر اسے گناہ ہوگا، نیز سب اولاد میں برابری کرتے ہوئے دو میں سے ایک کام کرنا ہوگا: جس اولاد کو زیادہ دیا ہے وہ واپس لے لے یا دوسروں کو بھی اتنا ہی دے دے۔
طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اولاد کو تحائف دیتے ہوئے سب میں برابری نہ کرنا جائز نہیں ہے، چاہے جلی ہوئی روٹی  ہی اضافی کیوں نہ دی جائے "
یہی موقف ابن مبارک سے مروی ہے اور اسی طرح کا موقف مجاہد اور عروہ سے منقول ہے" انتہی
"المغنی" (5/ 387)

مزید کیلیے سوال نمبر: (22169) کا مطالعہ کریں۔

نیز دائمی فتوی کمیٹی (16/207) کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور یہ جانتا ہوں کہ موت ایک حقیقت ہے، جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے، اور میرا سوال یہ ہے کہ میری والدہ ایک چھوٹے سے گھر کی مالک ہیں، جس کی میں نے از سر نو تعمیر کی ہے، اور میرا ایک بھائی ہے، جو اس تعمیر میں میرے ساتھ بالکل شریک نہیں تھا، اور وہ میرے والدین کو بہت زیادہ ناراض کرتا رہتا ہے، اور وہ اب تک ان کے ساتھ بہت برا تعامل کرتا ہے، اور وہ آج کل گھر سے باہر کہیں اور زندگی گزار رہا ہے، جسکی وجہ سے میری والدہ بہت زیادہ غصہ میں ہیں، اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ یہ گھر میرے نام پر رجسٹرڈ کروا دیں گی، میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں اپنی والدہ سے گفتگو کی، لیکن وہ اپنے اس ارادے میں پکی ہیں، کہ وہ یہ گھر میرے ہی نام پر رجسٹر کروائیں گی، لہذا میں اب آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میری والدہ نے یہ گھر میرے نام لکھ دیا اور میرے بھائی کو اس سے محروم کر دیا، تو کیا ان کو گناہ ہوگا؟ اور اگر میں نے یہ گھر لے لیا، تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر حقیقت ایسی ہے جیسے کہ ذکر کی گئی ہے، تو آپ کی والدہ کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آپ کے بھائی کو محروم کریں اور آپ کو یہ گھر دیں، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
(تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو) اس بارے میں دیگر بہت سی احادیث وارد بھی ہیں۔

اور اگر انہوں نے ایسے ہی کیا، جیسے کہ وہ کہہ رہی ہیں، تو وہ گناہ گار ٹھہریں گی، اور آپ بھی گناہ گار ہوں گے، اس لیے کہ آپ یہ گھر قبول کر کے ظلم اور گناہ میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ٹھہرے ہو، اور الله تعالی نے اپنے اس فرمان میں اس طرح کی چیزوں سے منع فرمایا ہے:    
( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ )
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو برائی اور زیادتی میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔[سورہ مائدہ: 2]

اور یہ واجب ہے کہ یہ عطیہ لوٹا دیا جائے، یا پھر دوسرے لڑکے کو بھی اسی کے برابر کوئی عطیہ دیا جائے، اور جب آپ یہ دیکھ رہے ہیں، کہ آپ کی والدہ آپ کے بھائی کو آپ کے ساتھ اس گھر میں شریک نہ کرنے کے ارادے پر ڈٹی ہوئی ہیں، تو آپ کے لیے اس عطیہ کو قبول کرنے پر کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن آپ پر اس کا آدھا حصہ اپنے بھائی کو دینا واجب ہے، تاکہ آپ اپنے ذمے سے بری ہو جائیں، اور یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ آپکی والدہ کی آپ دونوں کے علاوہ کوئی اور اولاد نہ ہو۔"
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی

رکن: عبد اللہ بن قعود        نائب صدر: عبد الرزاق عفیفی          صدر: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز

دوم:

اس بھائی نے بہنوں پر اس لیے خرچ کیا تھا کہ والد سے واپس لے گا تو ایسی صورت میں والد اسے اپنے مال سے دے سکتا ہے، یا اس کیلیے اتنے مال کی وصیت کر سکتا ہے جو اس نے شادی کے اخراجات پر خرچ کیا تھا، اس صورت میں دوسروں بھائیوں کو دینا ضروری نہیں ہے چاہے دیگر بہن بھائی اس پر راضی نہ ہوں؛ کیونکہ اس صورت میں یہ رقم عطیہ نہیں ہوگی  اور نہ ہی ہبہ ہوگی، بلکہ ایک اعتبار سے یہ قرض کی ادائیگی میں شامل ہوگا۔

دائمی فتوی کمیٹی (16/205) کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
" میرے والد صاحب کی عمر تقریباً  75  سال ہے، وہ ابھی زندہ ہیں، ان کا ایک پرانا مٹی سے بنا ہوا گھر اچھے علاقے میں ہے، میں نے اس گھر کو منہدم کر کے اپنے پیسوں سے اس کی از سر نو پکی تعمیر کروائی ، اور میں نے اس گھر کو کرائے پر دیا ہے، اور اس کے کرائے کی رقم میں ان لوگوں کو دیتا ہوں، جو مجھ سے قرض طلب کرتے ہیں، میں نے اس گھر کی تعمیر میں تعمیری ترقیاتی فنڈ سے کوئی قرض بھی نہیں لیا ، اب میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ وہ اپنے اس  گھر کو میری اولاد میں سے ایک کے حق میں کر دیں، جس کی عمر کم از کم سات سال ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میرے والد صاحب کی اولاد میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں، ایک بیٹی مجھ سے بڑی ہے، اور باقی سب مجھ سے چھوٹی ہیں، اور میں ہی اپنے والد اور والدہ صاحبہ کی تقریباً  15 سال سے کفالت کر رہا ہوں "

تو انہوں نے جواب دیا:
" آپ کے ذکر کردہ سوال میں غور و فکر کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کے جس بیٹے کیلئے آپ کے والد صاحب اس گھر سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں ، وہ ابھی فی الحال اس گھر کا محتاج نہیں ہے، اور آپ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنے والد صاحب سے یہ وعدہ کیا ہے، کہ اگر انہوں نے آپ کے بیٹے کو یہ گھر دے دیا ، تو آپ اپنے بھائیوں کیلیے اس کے بدلے اپنے پیسوں سے ایک الگ گھر بنا کر دیں گے، اور یہ کہ آپ کی پانچ بہنیں شادی شدہ ہیں، اور یہ کہ آپ نے پہلے ہی اپنے والد صاحب کو اپنے پیسوں سے وہ گھر بنا کر دیا ہے، جو وہ ابھی آپ کے بیٹے کو دینا چاہتے ہیں، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ کے والد صاحب کا مقصد صرف آپ کو یہ گھر دینا ہے، نہ کہ آپ کی دیگر بہنوں کو، اور انہوں نے عطیہ دینے میں آپ کے بیٹے کا نام حیلہ کرتے ہوئے لیا ہے تاکہ ظلم کے نام سے بچیں، لہذا آپ کے والد صاحب کیلئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ آپ کے بیٹے کو یہ گھر دیں؛ کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو)

اور جہاں تک آپ نے یہ جو ذکر کیا ہے کہ آپ ہی اپنے والد کے گھر کے اخراجات اٹھاتے ہیں، تو [اس بارے میں ہم آپ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ] اگر یہ پیسہ خرچ کرتے وقت ہی آپ کے دل میں صدقہ کی نیت تھی، تو اللہ تعالی آپ کو اس کا بدلہ دیگا، آپ کو یہ رقم اپنے والد سے واپس لینے کا حق نہیں ہے۔

اور اگر آپ نے واپس لینے کی نیت سے خرچ کیا تھا، تو آپ یہ رقم اپنے والد سے لے سکتے ہیں، لیکن آپ کیلئے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے والد سے ان پیسوں کا محاسبہ نہ کریں، اور نہ ان پر خرچ کی ہوئی رقم کو زیادہ سمجھیں، آپ کا ثواب تو اللہ کے پاس ہے، اور اگر آپ کی نیت درست تھی، تو آپ کو اپنی امید سے زیادہ بھی ثواب مل سکتا ہے۔ "

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی

رکن: عبد اللہ بن قعود        نائب صدر: عبد الرزاق عفیفی          صدر: عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب