اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

شديد سردى كى بنا پر غسل جنابت نہ كيا

سوال

دوپہر كا كھانا كھا كر ميں سويا تو نيند ميں احتلام ہو گيا، جب عصر كے وقت بيدار ہوا تو شديد سردى ہونے كى بنا پر ميں غسل نہ كر سكا، بلكہ ميں نے سلوار سے منى كے آثار ختم كر كے تيمم كيا اور عصر كى نماز ادا كر لى كيا ميرا يہ فعل صحيح ہے ؟ اور كيا احتلام كے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے، يا كہ منى كا اثر زائل كر كے وضوء كرنا ہى كافى ہے ؟ حقيقت ميں شديد سردى كى بنا پر ميں نے كئى روز بعد غسل كيا ان ايام ميں انہى لباس ميں نماز ادا كرتا رہا ہوں كيا يہ صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت ہے كہ عاجز ہونے كى صورت ميں شرعى تكليف ساقط ہو جاتى ہے، كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .

اور اس ميں غسل جنابت كرنے كى عدم قدرت بھى شامل ہے، چنانچہ جو شخص بھى كسى بيمارى يا شديد سردى جس كى بنا پر اسے بيمار يا ہلاك ہونے كا خدشہ ہو تو وہ تيمم كر كے نماز ادا كر لے، اور اسے وہ نماز لوٹانى نہيں پڑےگى؛ اس كى دليل درج ذيل حديث ہے.

عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" غزوہ ذات سلاسل ميں شديد سرد رات ميں مجھے احتلام ہوگيا اس ليے مجھے يہ خدشہ پيدا ہوا كہ اگر ميں نے غسل كيا تو ہلاك ہو جاؤں گا، ميں نے تيمم كر كے اپنے ساتھيوں كو فجر كى نماز پڑھا دى، چنانچہ انہوں نے اس واقعہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" اے عمرو كيا آپ نے جنابت كى حالت ميں ہى اپنے ساتھيوں كو نماز پڑھائى تھى ؟

چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو غسل ميں مانع چيز كا بتايا اور كہنے لگا كہ ميں نے اللہ تعالى كا فرمان سنا ہے:

اور تم اپنى جانوں كو ہلاك نہ كرو، يقينا اللہ تعالى تم پر رحم كرنے والا ہے النساء ( 29 ).

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے اور كچھ بھى نہ فرمايا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 334 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 323 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ اگر آپ كسى ايسى جگہ تھے اور وہاں پانى گرم كرنے كے ليے كوئى چيز مہيا نہ تھى، اور آپ نے ٹھنڈے پانى سے غسل كرنے ميں بيمار ہونے كا خدشہ محسوس كيا تو آپ كا فعل صحيح ہے، اور آپ كو نمازيں بھى نہيں لوٹانا پڑينگى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد