الحمد للہ.
اول:
ماہِ رجب کی فضیلت میں کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (75394) اور (171509) کا مطالعہ کریں۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہِ رجب کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، اور ماہِ رجب کی جمادی ثانیہ سے انفرادیت صرف اتنی ہے کہ یہ ماہ حرمت والے مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے، وگرنہ اس میں خصوصی روزے رکھنا، مخصوص نماز کی ادائیگی کرنا، یا کسی خصوصیت کیساتھ عمرہ وغیرہ کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ اس مہینے کا درجہ دیگر مہینوں جیسا ہی ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
"لقاء الباب المفتوح" (174/ 26) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق۔
دوم:
عبد الله بن امام احمد نے "زوائد المسند" (2346) میں ، طبرانی نے "الأوسط" (3939) میں ، بیہقی نے "شعب الایمان" (3534) میں اور ابو نعیم نے "حلیۃ الاولیاء" (6/269) میں زائدہ بن ابی رقاد کی سند سے نقل کیا ہے کہ : ہمیں زیاد نمیری نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رجب شروع ہوتا تو فرماتے:
(اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ) [یعنی: یا اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت ڈال، اور ہمیں رمضان نصیب فرما]
لیکن یہ سند ضعیف ہے، اس میں "زیاد نمیری " راوی ضعیف ہے، جسے ابن معین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
ابو حاتم کہتے ہیں کہ: " لا يحتج به " یعنی اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا۔
ابن حبان نے اسے اپنی کتاب "الضعفاء" میں نقل کرتے ہوئے کہا: " لا يجوز الاحتجاج به" اس راوی کو حجت بنانا جائز نہیں ہے۔
دیکھیں: "میزان الاعتدال" (2/ 91)
جبکہ "زائدہ بن ابی رقاد" مذکورہ بالا راوی سے بھی سخت ضعیف ہے، چنانچہ :
ابو حاتم کہتے ہیں: "یہ راوی زیاد نمیری کے ذریعے انس رضی اللہ عنہ سے منکر روایات نقل کرتا ہے، اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ منکر روایات اس کی اپنی طرف سے ہیں یا اس کے استاد زیاد کی طرف سے"
امام بخاری کہتے ہیں: یہ راوی "منکر الحدیث" ہے
امام نسائی کہتے ہیں: یہ راوی "منکر الحدیث" ہے، جبکہ اپنی کتاب "الکنی" میں کہا ہے کہ یہ "ثقہ نہیں ہے"۔
ابن حبان کہتے ہیں : "یہ مشہور راویوں سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اور اس کی حدیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا، اور اس کی احادیث صرف "اعتبار" [کسی بھی خبر سے مستفید ہونے کا کم ترین درجہ۔ مترجم]کیلئے لکھی جائیں"
ابن عدی کہتے ہیں: "زائدہ کے شاگردوں میں مقدمی اور دیگر افراد انوکھی احادیث روایات بیان کرتے ہیں، اور اس کی کچھ احادیث میں منکر احادیث بھی موجود ہیں"
دیکھیں: "تهذیب التهذیب" (3/ 305-306)
جبکہ سوال میں مذکور حدیث کو نووی نے "الأذكار" (ص189) میں ابن رجب نے "لطائف المعارف" (ص121) میں اور اسی طرح البانی نے "ضعیف الجامع" (4395) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
ہیثمی کہتے ہیں: "اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے، اور اس کی سند میں زائدہ بن ابی رقاد ہے، اس کے بارے میں امام بخاری "منکر الحدیث" ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور بہت سے لوگوں نے اسے مجہول قرار دیا ہے"
دیکھیں: "مجمع الزوائد" (2/ 165)
دوم:
حدیث ضعیف ہونے کے ساتھ ، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ دعا صرف رجب کی پہلی رات ہی کہی جائے گی، بلکہ اس میں مطلق دعا کے الفاظ ہیں، چنانچہ ان الفاظ کو بطورِ دعا رجب میں یا رجب سے پہلے بھی کہا جا سکتا ہے۔
سوم:
اگر کوئی مسلمان یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ! مجھے ماہِ رمضان نصیب فرما، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"معلی بن فضل کہتے ہیں: [سلف صالحین] چھ ماہ تک اللہ تعالی سے دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں ماہِ رمضان نصیب فرما، اور چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! جو عبادتیں ہم نے کیں ہیں وہ ہم سے قبول فرما "
یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین کی دعا یہ ہوا کرتی تھی: "یا اللہ! مجھے رمضان تک پہنچا دے، اور رمضان مجھ تک پہنچا دے، اور پھر مجھ سے اس میں کی ہوئی عبادات قبول بھی فرما"انتہی"
"لطائف المعارف" (ص 148)
شیخ عبد الکریم خضیر حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا :
حدیث: ( اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَب، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ) کی صحت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ حدیث تو ثابت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان اللہ عز و جل سے یہ دعا کرے کہ اسے رمضان نصیب ہو جائے ، اور رمضان میں قیام و صیام کی توفیق ملے، لیلۃ القدر تلاش کرنے کی توفیق دے، یا کوئی بھی اسی معنی پر مشتمل دعا کرے تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ از:
واللہ اعلم.