جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

قرآن کریم میں کسی بھی ظاہری طور پر اچھے نظر آنے والے لفظ کو بطور نام منتخب کرنے کا حکم

سوال

کچھ لوگ اپنے بچوں کا نام "لیس" رکھ دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کے کسی بھی لفظ کو بچوں کے نام کے طور پر رکھ سکتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی غلط مفہوم نہ ہو، تو آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اچھے نام رکھنے کے حوالے سے شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ لفظ اور معنی ہر اعتبار سے نام اچھا ہونا چاہیے، لہذا ایسے الفاظ بطور نام منتخب نہ کیے جائیں جن کی ادائیگی مشکل ہو چاہے اس کا معنی صحیح ہو، اور ایسا اچھا لفظ بھی بطور نام نہیں رکھا جائے گا جب اس کا معنی اچھا نہ ہو۔

کسی بھی چیز کی ظاہری شکل و صورت دیکھ کر اسے اچھا سمجھنا شرعی طور پر منع ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (2564) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، اللہ تعالی تو تمہارے دلوں اور کارکردگی کو دیکھتا ہے۔)

اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ ایسے ناموں سے منع فرمایا جو ظاہری طور پر اچھے لگتے ہیں لیکن ان کا بعض جملوں اور عبارتوں میں استعمال غلط ہو سکتا ہے، چنانچہ صحیح مسلم: (2137) میں سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غلام کا نام رباح [منافع والا] ، یسار [آسانی والا] ، نجیح [کامیاب] اور افلح [فلاح پانے والا] رکھنے سے منع فرمایا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے منع ہونے کی وجہ ذکر کی اور فرمایا: (آپ مذکورہ ناموں والے غلام کے بارے میں پوچھیں کہ: کیا فلاں ہے؟ اور وہ وہاں نہ ہو تو جواب ملے گا : نہیں) یعنی آپ رباح ، یا افلح کو تلاش کر رہے ہیں اگر وہ وہاں نہ ہو تو جواب دینے والا کہے گا: نہیں ہے۔ اس نفی سے یہ مفہوم نکلے گا کہ یہاں کوئی منافع والا اور کامیابی والا نہیں ہے، سب خسارے اور ناکامی والے ہیں۔ تو یہ مفہوم درست نہیں ہے، ایسی بات سن کر دلوں میں منفی تاثرات پیدا ہوتے ہیں، اگرچہ بولنے والا اس غلط مفہوم کو مراد نہیں لے رہا۔

نیز اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی دلالت ہے کہ قرآن کریم میں آیا ہوا ہر لفظ بطور نام رکھنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ لفظ "افلح" قرآن کریم میں واضح طور پر موجود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ [المؤمنون: 1] لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے افلح نام رکھنے سے منع فرما دیا۔

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل اور اہل علم کی کتب سمیت مسلمانوں کے نسل در نسل طریقے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں کہیں بھی ایسا عمل نہیں ملتا۔

اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اچھے نام منتخب کرنے کی ترغیب دلائی کہ عبد اللہ اور عبد الرحمن نام رکھیں، ہمیں یہ نہیں کہا کہ قرآن کریم میں جو بھی لفظ آ گیا وہی نام رکھ لیں، تو قرآن کریم میں کتنے ہی ایسے نام ہیں جو مسلمان اپنے بچوں کے نام نہیں رکھ سکتا، جیسے کہ فرعون، ہامان، اور قارون وغیرہ۔

ایسے ہی ہمیں یہ عمل صحابہ کرام سے بھی نہیں ملتا، حالانکہ صحابہ کرام قرآن کریم کی تعظیم اور قرآن کریم سے محبت ہم سے کہیں زیادہ کیا کرتے تھے۔

پھر آگے چل کر اہل علم میں سے بھی کسی سے یہ نہیں ملتا کہ انہوں نے ایسا عمل کیا ہو، نہ ہی عام مسلمانوں نے پہلے کبھی ایسا عمل کیا، بلکہ مسلمانوں کے اکثر نام جو کہ تاریخ، سیرت، اور سوانح کی کتابوں میں محفوظ بھی ہیں عام طور پر عبد اللہ، عبد الرحمن، عبد الرحیم، محمد، اور احمد وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔

اس لیے لوگوں کو اس عمل سے روکنا چاہیے، اور انہیں بتلانا چاہیے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے۔

والد کی ذمہ داری ہے کہ اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کی روشنی میں بچوں کے نام رکھنے کے لیے جو آداب ذکر کیے ہیں انہیں مد نظر رکھے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (7180) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اور حرام و مکروہ ناموں کے حوالے سے ضابطہ اور اصول جاننے کے لیے سوال نمبر: (1692) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب