الحمد للہ.
الحمدللہآپ کی بیوی کا آپ کی سالی کے خاوند کے بچوں سے کوئي تعلق اور واسطہ نہیں کیونکہ نہ تو وہ آپ کی سالی کی نسبی اور نہ ہی رضاعی ( یعنی دودھ کی ) اولاد ہے ، تو اس بنا پر آّپ کی بیوی پر اس بچے سے پردہ کرنا واجب ہے کیونکہ وہ اس کے لیے اجنبی کی حیثيت رکھتا ہے ۔
اوراسی طرح آپ بھی اس بچی کے لیے اجنبی ہیں آپ کے لیے اس کے ساتھ خلوت کرنا حلال نہيں اورنہ ہی اس کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں ، اوراس بچی کی لیے یہ حلال نہیں کہ وہ آپ سے پردہ نہ کرے بلکہ اس پر آپ سے پردہ کرنا واجب ہے ۔
اوررہا مسئلہ ان کے والد کی بیوی ( یعنی جوآپ کی سالی ہے ) کا تواس پر کوئي واجب نہیں کہ وہ ان سے پردہ کرے اس لیے کہ وہ اس کے محرم ہیں ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
فرمان باری تعالی ہے :
اورتم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیے ہیں ، لیکن جو کچھ ہوچکا سوہوچکا ۔
تواس آیت سے یہ پتہ چلا کہ انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے والد یا اپنے دادا کی منکوحہ سے شادی کرلے ، چاہے وہ آباء واجداد والد کی جانب سے ہوں یا پھر والدہ کی جانب سے ہوں ، اورچاہے اس نے عورت سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔
جب مرد اپنی بیوی سے عقد صحیح کرلیتا ہے تووہ عورت صرف اس عقد کی وجہ سے ہی اس کی اولاد اور اسی طرح اولاد کی اولاد پر بھی حرام ہوجاتی ہے چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ( یعنی بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، دھوتے دھوتیاں ) اوراس سے بھی نيچے کی نسل ۔ ا ھـ
یہ شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی کلام سے ماخوذ ہے دیکھیں : کتاب : الفتاوی الجامعۃ ( 2 / 591 ) ۔
آپ اس کے لیے مزید تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 20750 ) اور سوال نمبر ( 5538 ) کے جوابات کا بھی مطالعہ کریں ۔
واللہ اعلم.