الحمد للہ.
واجب اور فرض روزوں کے صحیح ہونے کے لیے رات کے کسی حصے میں نیت کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے) ابو داود: (2454) البانی نے اسے ارواء الغلیل (4/25) میں حدیث نمبر: (914) کے تحت صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث کے عربی الفاظ میں "يجمع الصيام" کا مطلب روزے کی نیت کرنا اور اس کا عزم باندھنا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا [شافعی فقہاء کا]موقف یہ ہے کہ رمضان کے روزے رات کے حصے میں کی گئی نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوں گے، اسی بات کے امام مالک، احمد، اسحاق، داود اور دیگر سلف اور خلف کے علمائے کرام قائل ہیں" ختم شد
" المجموع " (6 /318)
تاہم نیت کا معاملہ آسان ہے؛ لہذا جب آپ کو علم ہوا کہ صبح رمضان ہے تو آپ نے عزم اور ارادہ کر لیا کہ آپ نے روزے رکھنے ہیں تو یہی کافی ہے، زبان سے تلفظ شرط نہیں ہے، بلکہ نہ ہی یہ شرعاً جائز ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جسے بھی اس بات کا علم ہوا کہ صبح رمضان ہے اور وہ روزہ رکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو اس نے روزہ رکھنے کی نیت کر لی ہے، چاہے وہ زبان سے الفاظ ادا کرے یا نہ کرے، تمام مسلمانوں کا یہی عمل ہے، تمام کے تمام اسی طرح روزے کی نیت کرتے ہیں" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (25 / 215 )
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ " الشرح الممتع " ( 6 / 353 – 354 ) میں کہتے ہیں کہ:
"کوئی بھی اختیاری عمل انسان کی نیت کے بغیر ممکن نہیں ، یعنی مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کام جو انسان اپنی مرضی سے کرے تو اس میں نیت لازمی ہوتی ہے[چاہے اس کا زبان سے اقرار کرے یا نہ کرے]۔۔۔ اس سے یہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ جو لوگ نیت کے حوالے سے وسوسے میں پڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے نیت ہی نہیں کی! یہ در حقیقت ان کا وہم ہوتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کام اس نے اپنے اختیار اور مرضی سے کیا ہے اور نیت نہیں تھی!" ختم شد
پورے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کی نیت پہلے دن ہی کر لی جائے تو اس طرح دیگر ایام میں تجدید نیت کی ضرورت نہیں رہتی، بشرطیکہ درمیان میں سفر یا بیماری کی وجہ سے روزوں میں انقطاع نہ آئے، اگر انقطاع آ جائے تو تجدید نیت کر لے، لیکن یہ شرط نہیں ہے لہذا یہ ضروری نہیں کہ مسلمان ہر رمضان کے شروع میں پورے رمضان کے روزے رکھنے کی نیت کرے، بلکہ اگر کوئی شخص ہر روزے کی نیت الگ سے کرتا ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص رمضان کی ہر رات میں روزے کی نیت کرتا ہے اور صبح روزہ رکھتا ہے تو اس کے تمام روزے مکمل ہیں" ختم شد
" الإقناع في مسائل الإجماع " ( 1 / 227 )
لیکن اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ اس نے روزے کی نیت مطلق طور پر نہیں کی یہاں تک کہ رمضان کا پہلا دن شروع ہو گیا اور اسے ابھی تک یہ ہی معلوم نہیں کہ رمضان شروع ہو چکا ہے یا نہیں، چنانچہ طلوع فجر کے بعد اسے معلوم ہوا کہ یہ دن رمضان کا دن ہے، اور اس شخص نے رات کے کسی بھی لمحے میں یہ نیت نہیں کی کہ صبح وہ رمضان کا پہلا روزہ رکھے گا، نہ ہی وہ روزے کی سحری کھانے کیلیے بیدار ہوا تو ایسی صورت میں وہ بقیہ سارا دن کھانے پینے سے پرہیز کرے اور پھر اس دن کی قضا دے؛ کیونکہ فرض روزے کی نیت رات کے کسی لمحے میں کرنا ضروری ہوتا ہے، جیسے کہ پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
روزے کی نیت کے متعلق کیفیت جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (22909) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم