اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

صرف فرضى نمازوں پر ہى اقتفاء كرنا چاہتا ہے اور نفلى نماز ادا نہيں كرنا چاہتا

21170

تاریخ اشاعت : 12-03-2010

مشاہدات : 7982

سوال

كيا اگر ميں صرف فرضى نمازيں ہى ادا كروں اور غير فرضى چھوڑ دوں تو مجھے كوئى گناہ ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نوافل كى ادائيگى عظيم امور ميں سے ہے جو بندے كے ليے اللہ تعالى كى محبت كو واجب كرتى ہے، اور اس كى بنا پر جنت اور رحمت واجب ہو جاتى ہے، بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كا فرمان ہے: جس نے ميرے ولى كے ساتھ دشمنى كى تو ميں اس كے خلاف اعلان جنگ كر ديتا ہوں، اور ميرى فرض كردہ ميں سے مجھے محبوب اشياء كے ساتھ ميرا تقرب حاصل كرتا ہے، ميرا بندہ جب نوافل كے ساتھ ميرا قرب حاصل كرتا ہے تو ميں اسے محبوب بنا ليتا ہوں، اور جب ميں اس سے محبت كرنے لگوں تو ميں اس كا كان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس كى آنكھ بنا جاتا ہوں جس سے وہ ديكھتا ہے، اور اس كا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پكڑتا ہے، اور اسكى ٹانگ بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال كرے تو ميں اسے عطا كرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ميں اسے پناہ ديتا ہوں"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6502 ).

لہذا مسلمان كو چاہيے كہ وہ بلند ہمت اور قوى العزم ہو، كسى كم تر پر راضى نہ ہو، بلكہ دينى امور ميں اسے اكمل اور افضل اشياء تلاش كرنى چاہيے جس طرح وہ دنياوى معاملات ميں كرتا ہے.

اور اسكے ساتھ جب مسلمان شخص صرف فرضى نماز پر ہى اكتفاء كرے تو اس ميں كمى واقع نہيں ہوتى اور نہ ہى وہ گنہگار ہوتا ہے، اگرچہ علماء كرام كے ہاں سنت كو مستقل طور پر ترك كرنا قابل مذمت امر ہے، حتى كہ امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جس نے وتر ترك كيا وہ برا آدمى ہے اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے.

بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے طلحہ بن عبيد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا حتى كہ قريب آ گيا تو وہ اسلام كے متعلق دريافت كر رہا تھا:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: دن اور رات ميں پانچ نمازيں ادا كرنا، تو اس شخص نے كہا: كيا مجھ پر اس كے علاوہ بھى ہيں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں، ليكن يہ كہ تم نفلى نماز ادا كرو

راوى كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے زكاۃ كے متعلق بھى كہا تو وہ كہنے لگا: كيا ميرے ذمہ اس كے علاوہ بھى ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں، ليكن يہ كہ تم نفلى زكاۃ دو.

راوى كہتے ہيں: وہ شخص يہ كہتا ہوا واپس پلٹا كہ اللہ كى قسم ميں نہ تو اس سے زيادہ كرونگا اور نہ ہى اس ميں كچھ كمى كرونگا.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اگر اس نے صدق اختيار كيا تو يہ كامياب ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 46 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 11 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

احتمال ہے كہ: نفلى نماز ادا نہ كرنا چاہتا ہو، اس كے ساتھ كہ وہ فرائض ميں كچھ كمى نہ كرے، تو بلاشك يہ شخص كامياب ہے، اگرچہ اس كا مستقل طور پر سنت ترك كرنا قابل مذمت ہے، اور اس طرح اس كى گواہى بھى رد ہو گى، ليكن يہ ہے كہ وہ گنہگار نہيں بلكہ نجات يافتہ ہے. واللہ اعلم.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 1 / 121 ).

ميرے بھائى اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو علم ہونا چاہيے كہ نوافل بہت زيادہ اجروثواب كے باعث ہيں، اور ان كى ادائيگى ميں عظيم فضل ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روز قيامت بندے كے اعمال ميں سے اس كى نماز كا حساب ہو گا، اگر تو اس كى نماز درست ہوئى تو وہ كامياب اور نجات حاصل كرلے گان اور اگر اس كى نماز ہى درست نہ ہوئى تو وہ خائب و خاسر ہے، اور اگر اس كى فرائض ميں كچھ كمى و كوتاہى ہوئى تو اللہ عزوجل فرمائے گا: ديكھو ميرے بندے كى كوئى نفلى نماز ہے ؟

تو اس نفلى نماز سے اس فرائض كى كمى كو پورا كيا جائےگا، پھر سارے اعمال اسى طرح ہونگے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 413 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 864 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے دن اور رات ميں بارہ ركعت ادا كيں اس كے ليے جنت ميں گھر تعمير كيا جاتا ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 728 ).

اللہ تعالى آپ كو بلند امور كى توفيق عطا فرمائے اور اعمال صالح اور اچھى بات كرنے ميں آپ كى معاونت فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب