اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی بار عمرہ کیا؟

سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی بارعمرہ کیا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قتادہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ انس رضي اللہ تعالی عنہ نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ عمرہ کیا ، صرف وہ عمرہ جوآپ نے حج کے ساتھ کیا ہے اس کے علاوہ باقی سب عمرے ذی القعدہ میں تھے ۔

ایک عمرہ توحدیبیہ سے ، یا حدیبیہ کے زمانے میں ذی القعدہ کے مہینہ میں ، اورایک عمرہ آ‏ئندہ برس ذی القعدہ میں ، اور ایک عمرہ جعرانہ سے یہ بھی ذی القعدہ میں تھا جب کہ آپ نے مال غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر الحج ( 1654 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( الحج 1253 ) ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعلی کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ھجرت کے بعد چارعمرے کیے جوسب کے سب ذی القعدہ کے مہینہ میں تھے ۔

پہلا :

عمرہ حدیبیہ : یہ سب سے پہلا عمرہ ہے جوکہ چھـ ھجری میں کیا تو مشرکین مکہ میں انہیں روک دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اونٹ وہیں ذبح کردیے اورخود اورصحابہ کرام نے اپنے سرمنڈوا کر اپنے احرام سے حلال ہوگۓ اوراس سال مدینہ واپس تشریف لے آۓ ۔

دوسرا :

عمرہ قضاء : حدیبیہ کے بعد والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوۓ اوروہاں تین دن قیام فرمایا اورعمرہ مکمل کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لاۓ ۔

تیسرا :

وہ عمرہ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا تھا ۔

چوتھا :

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی جانب نکلے اورمکہ واپسی پر جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھ کرمکہ داخل ہوۓ ۔۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرے چار سے زآئد نہیں ہیں ۔ دیکھیں : زاد المعاد ( 2 / 90-93 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں :

علماء کرام کا کہنا ہے کہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمرے ذی القعدہ کی فضیلت اوردورجاھلیت کی مخالفت کی بنا پر اس مہینہ میں کیۓ ، اس لیے کہ اہل جاہلیت کا یہ خیال تھا کہ ذی القعدہ ميں عمرہ کرنا بہت بڑے فجور کا کام ہے جیسا کہ پیچھے بیان ہوچکا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کئ بار اس لیے کیا تا کہ لوگوں کے لیے اچھی طرح بیان ہوجاۓ کہ اس مہینہ میں عمرہ کرنا جائزہے ، اورجوکچھ اہل جاہلیت کرتے تھے وہ باطل ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ دیکھیں شرح مسلم ( 8 / 235 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد