سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خواتین کے قبرستان جانے کے بارے میں ایک شبہ اور اسکا رد

212378

تاریخ اشاعت : 08-11-2014

مشاہدات : 11088

سوال

سوال: مستدرک حاکم کی روایت نمبر: (1392) جس میں خواتین کے قبرستان میں جانے کا ذکر ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
خواتین کے قبرستان جانے کے بارے میں تین مختلف آراء ہیں:
1- حرام ہے۔
2- حرام تو نہیں مکروہ ہے۔
3- مکروہ بھی نہیں ہے، انکے لئے قبرستان میں جانا جائز ہے۔
ماخوذ از: ابن قیم کی کتاب:"تهذيب السنن" (2 /106-107)
ویب سائٹ پر پہلے قول کو اختیار کیا گیا ہے، اس کیلئے سوال نمبر: (8198) اور (34464) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
قبروں کی زیارت جائز قرار دینے والوں کی دلیل وہ روایت ہے جسے حاکم (1392) نے اور انہی کی سند سے بیہقی (7207) نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے کہ : "عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن قبرستان سے آرہی تھیں، تو میں نے اُن سے عرض کیا:
ام المؤمنین! آپ کہاں سے آرہی ہیں؟
تو انہوں نے کہا: اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر سے۔
میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے سے منع نہیں فرمایا؟
تو انہوں نے فرمایا: ہاں! منع کیا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا تھا"
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اسکے تمام راوی ثقہ ہیں، حافظ عراقی کہتے ہیں کہ: "ابن ابی دنیا نے اپنی کتاب "القبور"میں اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے"
دیکھیں: "تخريج أحاديث الإحياء" (ص 1872)
اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "الإرواء" (3/233) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اور ابن ماجہ (1570) نے مختصراً اسے روایت کیا ہے، اس میں لفظ یوں ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے کی رخصت دی۔
اسے بوصیری نے "الزوائد" (2/42) میں صحیح کہا ہے۔
اور ترمذی (1055) میں عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ : "عبد الرحمن بن ابو بکر کی وفات "حُبشی" جگہ پر ہوئی تو انہیں مکہ لے جایا گیا، اور وہیں پر تدفین ہوئی، چنانچہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر پر آئیں تو یہ شعر کہے:
وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
ہم جذیمہ [عراق اور جزیرہ عرب کا ایک بادشاہ]کے دو مشیروں کی طرح لمبی زندگی اکٹھے رہے، حتی کہ یہ مشہور ہوگیا کہ اب ان دونوں میں جدائی نہیں ہوگی۔
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا
لیکن جب جدائی ہوئی تو ایسے لگا کہ میں اور مالک[شاعر کا بھائی جس کیلئے مرثیہ کہا جا رہا ہے]اتنی لمبی صحبت کے باوجود ایک رات بھی اکٹھے نہیں رہے۔
شعر کہنے کے بعد انہوں نے کہا: "اللہ کی قسم اگر میں وفات کے وقت تمہارے پاس ہوتی تو تمہیں وہیں دفنایا جاتا جہاں تم فوت ہوئے، اور اگر میں تمہارے پاس ہوتی تو تمہاری زیارت کیلئے نہ آتی"
اس حدیث کو البانی نے "ضعیف ترمذی" میں ضعیف قرار دیا ہے۔
قبرستان جانے سے روکنے والے علمائے کرام نے اس حدیث کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
- عائشہ رضی اللہ عنہا قبر کی زیارت کیلئے نہیں گئیں تھیں، بلکہ وہ حج کیلئے گئیں تھیں، چنانچہ جب وہ قبر کے پاس سے گزریں تو دعا کیلئے کھڑی ہوگئیں۔
- اور اگر مان بھی لیا جائے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا قبر کی زیارت کیلئے ہی گئیں تھیں، تو یہ آپ رضی اللہ عنہا کا اجتہاد تھا، جو کہ خواتین کے قبرستان جانے سے منع کرنے کیلئے وارد ثابت شدہ احادیث کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
- اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا کہ: " منع کیا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا تھا " یہ عام الفاظ ہیں جن میں خواتین کے بارے میں قبروں کی زیارت کا حکم بیان نہیں کیا گیا، چنانچہ یہ الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : (میں تمہیں قبروں کی زیارت سے روکتا تھا، اب قبروں کی زیارت کرو)مسلم: (977) میں ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "۔۔۔ عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ حج کیلئے تشریف لائی تھیں، تو جب راستے میں اپنے بھائی کی قبر کے قریب سے گزریں تو وہاں کھڑی ہوگئیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ حرج والی بات یہ ہے کہ خواتین قبروں کی زیارت کی نیت کرکے گھر سے جائیں، اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ انہوں نے اپنے بھائی کی قبر کی زیارت کی نیت کی تھی، تو انہوں نے ہی یہ کہا ہے کہ: " اگر میں [اسوقت] تمہارے پاس ہوتی تو تمہاری زیارت کیلئے نہ آتی " چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک بھی درست بات یہی تھی کہ خواتین کیلئے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہے، وگرنہ انکی یہ بات بالکل بے معنی ہوجائے گی۔
جبکہ بیہقی کی روایت میں مذکور آپکا کہنا کہ: " منع کیا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا تھا "۔۔۔ اگر یہ صحیح ثابت ہو تو یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب سے تاویل ہوگی، جیسے کہ دیگر لوگوں نے بھی خواتین کے قبرستان جانے کے بارے میں تاویلات کی ہیں، جبکہ حجت تو صرف معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی ہے، راوی کی تاویل حجت نہیں بن سکتی، [ہاں]راوی کی تاویل اس وقت قابل قبول ہوگی جب وہ اپنے سے مضبوط دلیل سے متصادم نہ ہو، لیکن [یہاں ]اس تاویل کا تصادم ان احادیث سے ہو رہا ہے جن میں قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا ہے"انتہی
" تهذيب السنن " (2/110-111)
مزید کیلئے دیکھیں: "مجموع فتاوى ورسائل عثيمين " (9/ 430) اور " فتاوى اللجنة الدائمة " (9/ 103)
واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب