سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا بچے كا نام محمد ركھنا اسے ممتاز كرتا ہے

21359

تاریخ اشاعت : 10-05-2008

مشاہدات : 8805

سوال

چھ برس قبل ميرے سسر فوت ہوئے تو ہم نے ان كى ياد ميں اپنے بچے كا نام محمد ابراہيم ركھا، اس سبب سے سب كہتے ہيں كہ اس بچے كے سات نہ تو سختى سے پيش آؤ، اور نہ ہى اسے عام بچوں كى طرح پكارو جس طرح كوئى بھى ماں اپنے بچے كو پكارتى ہے، بلكہ اسے ادب و احترام كے ساتھ پكارنا ضرورى ہے، ليكن ميں اسے كسى بھى ماں كى طرح آواز دينا چاہتى ہوں نہ كہ ادب و احترام كے ساتھ، اب ميں اسے ڈانٹ نہيں سكتى، كيا نام بچوں كى شخصيت اور ان كى قدر و منزلت پر اثر انداز ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے ليے اپنے سسر كے نام پر بيٹے كا نام ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، يہ چيز بيٹے اپنے باپ كے احترام اور محبت كى دليل ہے اور خاص كر جبكہ اس كا نام دو نبيوں كے نام پر مشتمل ہے.

دوم:

كسى نبى يا صحابى كے نام پر بچے كا نام ركھنے كا معنى يہ نہيں كہ بچے كو ڈانٹا نہيں جا سكتا، اور اس پر سختى نہيں كى جا سكتى، چہ جائيكہ بچے كا نام سسر كے نام پر ركھا گيا ہو! آپ اسے كسى بھى ماں كى طرح بغير كسى تكلف اور احترام كے اپنے بيٹے كو آواز دے سكتى ہيں.

اللہ تعالى كے كسى محبوب بندے يا كسى نبى كے نام پر بچے كا نام ركھنا بچے كى غلطى پر اسے ڈانٹنے اور يا سزا دينے ميں مانع نہيں، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو والدين اور بچوں كے ذمہ داران كو اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز كى تعليم دينے كا حكم ديا ہے، اور كہا ہے كہ جب وہ دس برس كى عمر ميں ہوں اور نماز ادا نہ كريں تو انہيں سزا ديں اور ماريں بھى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى بھى " محمد " وغيرہ نامى بچے كو اس حكم سے استثنى نہيں كيا.

صحابہ كرام اور تابعين عظام كے بہت سارے واقعات ملتے ہيں كہ انہوں نے اپنى اولاد كو ڈانٹ ڈپٹ كى اور بہت سارے ان ميں سے " محمد " يا " عبد اللہ " يا " عبد الرحمن " نامى بھى تھے.

سوم:

معروف ہے كہ ـ غالبا ـ نام كا مسمى يعنى بچے پر اثر ہوتا ہے اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قبيح اور غير نام كو اچھے اور بہتر نام ميں تبديل كر ديا كرتے تھے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب نام معانى كے قالب اور اس پر دلالت كرنے والے ہوتے ہيں تو حكمت كا تقاضہ ہے كہ نام اور معانى كے درميان ارتباط اور مناسبت ہو، اور اس كے ساتھ معنى اس طرح محض اجنبى نہ ہو كہ اس كے ساتھ تعلق اور مناسبت ہى نہ ركھے؛ كيونكہ حكمت والے حكيم كى حكمت اور واقع اس كے خلاف گواہى ديتا ہے.

بلكہ ناموں كى مسميات پر ضرور تاثير ہوتى ہے، اور مسميات يعنى جن كا نام ركھا گيا ہو ان پر اچھے اور برے، اور ہلكے اور بھارى، اور لطيف و كثيف ناموں كى تاثير ضرور ہوتى ہے، جيسا كہ كہا جاتا ہے:

آپ كى آنكھوں نے لقب والا ايسا بہت ہى كم ديكھا ہے كہ اگر اسكے لقب ميں آپ غور كريں تو كوئى معنى ضرور پايا جاتا ہے.

ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 336 ).

چہارم:

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل حديث كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا يہ حديث صحيح ہے ؟

" جس كا نام محمد ہو تو اسے مت مارو اور نہ ہى اسے برا كہو "

تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ حديث رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ و كذب ہے، سنت نبويہ مطہرہ ميں اس كى كوئى اصل نہيں، اور اسى طرح كسى قائل كا يہ قول بھى: " كہ جس نے محمد نام ركھا تو اس كے ليے محمد كى جانب سے ذمہ ہے، اور قريب ہے كہ وہ اسے جنت ميں داخل كر دے "

اور اسى طرح يہ قول: " جس كا نام " محمد " ہو تو اس كا گھر ايسا ايسا ہو گا " يہ سب اقوال و اخبار ايسى ہيں جن كى صحت كے اعتبار سے كوئى اساس و بنياد نہيں، چنانچہ اعتبار تو محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباح و اطاعت كا ہے، نہ كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے نام كا اعتبار، بہت سارے ايسے افراد ہيں جن كا نام تو محمد ہے ليكن وہ خود خبيث ہيں؛ كيونكہ وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى نہيں كرتا، اور نہ ہى وہ شريعت محمديہ كى تابع ہوا.

اس ليے نام لوگوں كو پاك نہيں كر ديتے، بلكہ انہيں تو ان كے اعمال صالحہ اور اللہ كا تقوى پاك صاف كرتے ہيں، چنانچہ جس كا نام محمد يا احمد ركھا گيا ہو يا اس كى كنيت ابو القاسم ہو ليكن وہ خود كافر يا فاسق ہو تو اسے يہ كچھ فائدہ نہيں ديگا، بلكہ بندے كے ليے واجب ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرے، اور اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى والے اعمال كرے، اور شريعت اسلاميہ كى اتباع كرے جس دے كر نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو مبعوث كيا گيا ہے، تو يہى چيز اسے فائدہ و نفع ديگى، اور يہى نجات و كاميابى اور سلامتى كى راہ ہے، ليكن شريعت پر بغير كسى عمل كے صرف نام ركھنے كا نجات و سزا كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 6 / 370 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب