سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

دوڑ کے مقابلے کیلئے پالے ہوئے اونٹوں میں زکاۃ ہے؟

220191

تاریخ اشاعت : 10-04-2016

مشاہدات : 2656

سوال

سوال: ایسے اونٹ جنہیں صرف دوڑ کے مقابلے کیلئے پالا جائے تو کیا ان میں زکاۃ ہے؟ واضح رہے کہ انہیں چارہ خرید کر ڈالا جاتا ہے، خود سے چرنے کیلئے نہیں جاتے، تاہم ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحیح احادیث سے "بہیمۃ الانعام" جانوروں میں زکاۃ واجب  ہے، ان میں اونٹ، گائے، اور بکریاں شامل ہوتی ہیں، تاہم زکاۃ واجب ہونے کیلئے دو شرائط ہیں:

1-  یہ جانور چر کر اپنا پیٹ بھرتے ہوں، یعنی چراگاہوں میں خود ہی کھا پی کر پیٹ بھر لیں، چنانچہ اگر ایسے جانوروں کا مالک سال کا اکثر حصہ اپنے خرچے سے چارا ڈالتا ہے تو ان میں زکاۃ نہیں ہوگی۔
پہلے سوال نمبر: (40156) اور (49041) میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

2- ان جانوروں کو پالنے کا مقصد دودھ اور افزائش نسل ہو، چنانچہ اگر کسی نے ان جانورں کو کھیتی باڑی، یا رہٹ چلانے ، یا سواری کیلئے یا کسی بھی مقصد سے پالا  ہوا  ہو تو اس میں زکاۃ نہیں ہوگی۔

جمہور اہل علم نے یہی قاعدہ مقرر کیا ہے کہ کام کاج کیلئے پالے جانے والے جانوروں میں زکاۃ نہیں ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کنواں چلانے والے جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے خلفائے راشدین  کے زمانے میں بھی موجود تھے، لیکن  ایسا کوئی شخص میرے علم میں نہیں ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفائے راشدین میں سے کسی سے یہ نقل کیا ہو کہ انہوں نے اس پر زکاۃ وصول کی ہے" انتہی
" الأم " (2/ 25)

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتےہیں:
"اکثر اہل علم کے ہاں کام کرنے کیلئے پالے ہوئے جانوروں پر زکاۃ نہیں ہے" انتہی
" المغنی" (4/12)

اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کام کرنے کیلئے پالے جانے والے جانور، اور جن جانوروں کو چارا خود ڈالا جائے ان میں زکاۃ واجب نہیں ہے، ان کا حکم تن پر موجود کپڑوں اور گھر کے سامان والا ہے" انتہی
" المجموع شرح المهذب " (5/355)

ابو عبید کہتے ہیں:
"اگر آپ نگاہِ بصیرت سے اس مسئلے پر غور کریں تو مسئلہ ایسے ہی نظر آئے گا جیسے کہ انہوں نے کہا ہے، اور اس کے دو اسباب ہیں:
1- جس وقت ان جانوروں کو کام میں لگایا گیا ، اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوا تو ان کا حکم سواری والے جانوروں کی طرح ہوگا، اور ان جانوروں والا حکم ہوگا جو مال برداری کیلئے استعمال ہوتے ہیں، جیسے کہ گدھے اور خچر وغیرہ ہیں، چنانچہ اس طرح یہ جانور زکاۃ واجب نہ ہونے  میں غلام اور گھریلو سامان کی طرح ہونگے ، لہذا ان کا حکم چرنے والے جانوروں سے مختلف ہو جائے گا۔
2- دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر یہ جانور کھیتی باڑی میں حصہ لیتے ہیں تو جس فصل کی کاشت انہی جانوروں کیساتھ کی گئی اور بعد میں اس کا عشر بھی ادا کیا گیا تو اس طرح لوگوں پر زکاۃ کا دہرا بوجھ ہوگا" انتہی
" الأموال " (ص: 472)

ابو داود: (1572) نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ : (کام کرنے والے جانوروں پر کوئی زکاۃ نہیں ہے)
ابن حجر رحمہ اللہ " بلوغ المرام" (ص: 175) میں کہتے ہیں:
"اس اثر کے بارے میں راجح یہی ہے کہ یہ موقوف ہے" یعنی علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔

"مطلب یہ ہے کہ ایسے جانور جنہیں رہٹ چلانے ، کھیتی باڑی کرنے یا مال برداری کیلئے استعمال کیا جائے ان میں زکاۃ نہیں ہے، اور حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ چاہے ایسے جانور چرنے والے ہوں یا انہیں چارا ڈالا جاتا ہو" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة" (9/173)

اور جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
"ایسی گائے جسے کھیتی باڑی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس میں زکاۃ نہیں ہے" انتہی
اس اثر کو دارقطنی: (2/493) میں نقل کیا گیاہے اور بیہقی نے " السنن الكبرى " (4/196) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی اثر کے "مصنف ابن ابی شیبہ": (3/131) میں الفاظ یوں ہیں: "ہل چلانے والے جانوروں میں صدقہ نہیں ہے"
اس اثر کے عربی الفاظ: "الْمُثِيرَةِ "کا وہی معنی ہے جو فرمانِ باری تعالی :
( إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ)
ترجمہ: وہ گائے ہل چلاتی ہو  اور نہ ہی کھیتی کو پانی لگائے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہی موقف علی، معاذ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، اور صحابہ کرام میں ان کا کوئی مخالف بھی نہیں ہے" انتہی
" التمهيد" (20/142)

اور "المدونہ ": (1/357)میں ہے کہ:
"مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کسی شخص  کے پاس بکریاں، گائیں، یا اونٹ کام کرنے کیلئے ہوں یا وہ انہیں  خود چارا ڈالتا ہو تو نصاب مکمل ہونے پر اس میں  زکاۃ واجب ہوگی، اسی طرح مالک یہ بھی کہا کرتے تھے کہ: کام کاج کیلئے مختص جانور اور دیگر سب  برابر ہیں" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد کا یہ موقف تھا کہ کام کاج کرنے والے جانوروں میں  کوئی زکاۃ نہیں ہے، لیکن اہل مدینہ ان میں بھی زکاۃ کے قائل ہیں، لیکن ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی
" المغنی " (4/12)

دوم:

دوڑ کیلئے پالے جانے والے اونٹوں میں زکاۃ نہیں ہے، چاہے ان کا مالک انہیں خود چارہ ڈالتا ہو یا نہ ، کیونکہ انہیں بھی کام کاج کیلئے پالے جانے والے جانوروں میں شامل کیا جائے گا، کیونکہ مالک نے انہیں دودھ پینے اور افزائش نسل کیلئے نہیں رکھا ہوا، بلکہ  دوڑ، سواری اور مقابلوں میں شرکت کیلئے رکھا ہوا ہے،  چنانچہ ان کا گوشت کھانا یا دودھ پینا مقصود نہیں ہے۔

ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کام کاج کیلئے پالے جانے والے جانوروں کی دودھ اور افزائش نسل میں کار کردگی بہت کم ہوتی ہے، چنانچہ ان سے افزائش  کے علاوہ دیگر طریقوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جیسے ملکیتی زمین پر رہائش رکھ کے اس سے مستفید ہوتے ہیں، چنانچہ جس طرح رہائشی زمین پر زکاۃ نہیں ہے اسی طرح ان جانوروں پر بھی زکاۃ لازمی نہیں ہونی چاہیے" انتہی
" الحاوي الكبير" (3/189)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسا سامان جو مالک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہو جیسے کہ پہننے کیلئے کپڑے، خدمت کیلئے غلام، رہائش کیلئے مکان، سواری کیلئے گھوڑا وغیرہ، اور پڑھنے کیلئے کتب تو ان میں زکاۃ نہیں ہے۔۔۔ اور اس کا تقاضا یہ بھی ہوا کہ کھیتی باڑی و دیگر امور کیلئے استعمال ہونے والے بیل اور اونٹ   میں بھی زکاۃ نہ ہو، تو یہ خالص قیاس کی مثال ہے، اور اسی بات کا نصوص بھی تقاضا کرتی ہیں، اس طرح سے چرنے والے جانوروں اور کام کاج کیلئے پالے جانے والے جانوروں میں بھی فرق واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ  ان جانوروں کو صرف کام کاج کیلئے رکھا گیا ہے، چنانچہ ان کا حکم بھی لباس، غلام، اور مکانات والا ہوگا" انتہی
" إعلام الموقعين " (2/62)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (8/16) میں ہے:
"دوڑ کیلئے تیار کیے جانے والے اونٹوں میں زکاۃ نہیں ہے؛ کیونکہ  انہیں استعمال کیلئے پالا جا رہا ہے، اور ویسے بھی انہیں چارا ڈالا جاتا ہے، خود سے چرنے کی انہیں عادت نہیں ہوتی، تاہم اگر دوڑ کے مقابلے میں نصاب کے برابر یا زیادہ رقم ملے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی" انتہی

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا یہ بھی کہنا ہےکہ:
"اگر یہ اونٹ  دوڑ کے مقابلے میں شرکت کیلئے تیار کیا جا رہا ہے جس میں جیتنے والے اونٹ کے مالک کو انعام دیا جاتا ہے تو یہ تجارت کیلئے تیار نہیں کیا جا رہا چنانچہ اس میں زکاۃ واجب نہ ہوگی، تاہم انعامی رقم اگر نصاب کے برابر ہو یا زیادہ ہو اور اس پر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جائے تو اس میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کرنی ہوگی، یعنی ہر سو میں سے اڑھائی" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة" (8/28)

سوم:

اگر دوڑ کیلئے پالے جانے والے اونٹوں  کا مقصد انہیں فروخت کر کے نفع کمانا ہو ، اور ان اونٹوں کو بطور رأس المال تیار کیا جائے تو اس حالت میں بطور سامانِ تجارت ان کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، چرنے والے جانوروں کی زکاۃ ان پر لاگو نہیں ہوگی۔

لہذا جس دن زکاۃ ادا کرنے کا وقت آ جائے تو ان کی موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگائی جائے گی اور اس میں 2.5٪ زکاۃ ادا کریں۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (130487) اور (78842) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب