جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ایک شخص آدھی کمپنی کا مالک ہے، اور اداری امور سر انجام دینے پر اضافی نفع بھی ملتا ہے، تو اس کی زکاۃ کیسے اد اہوگی؟

220314

تاریخ اشاعت : 01-07-2015

مشاہدات : 4664

سوال

ایک کمپنی کا ڈائریکٹر اسی کمپنی کے نصف حصص کا مالک بھی ہے، چنانچہ سالانہ منافع میں سے نصف منافع اس کا ہوتا ہے، اور ایک تہائی منافع اس کمپنی کو چلانے کے عوض میں وصول کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کمپنی کا ڈائریکٹر کمپنی کے حصص کیساتھ حاصل شدہ منافع سمیت اس کمپنی کو چلانے کی اجرت ان سب کی زکاۃ ادا کریگا یا دیگر مزدوروں کی طرح ایک تہائی اجرت کو زکاۃ کیلئے شامل کیے بغیر صرف حصص کیساتھ حاصل شدہ منافع کی زکاۃ ادا کریگا؟
اعداد و شمار میں یوں سمجھیں کہ: ڈائریکٹر کا رأس المال 5 ملین، منافع 6 ملین، اور کمپنی چلانے کی اجرت 4 ملین تو کیا اب [5+6+4]15 ملین کی زکاۃ دے گا؟ یا صرف 11 ملین کی کیونکہ 4 ملین اجرت کے منہا کر دیے جائیں گے اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی جائے گی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کمپنی کے حصص  میں شریک ڈائریکٹر اگر کمپنی کی ادارت  کے عوض میں مخصوص تناسب کیساتھ منافع وصول کرتا ہو تو بھی وہ شریک ہی رہتا ہے کمپنی کے اجیر  کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ:

1- کمپنی چلانے کا معاوضہ  فیصدی تناسب میں ہے، معین مقدار میں  اجرت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کمپنی کو فائدہ نہ ہو تو کمپنی چلانے کے عوض میں اسے کچھ نہیں ملے گا، تو یہ معاملہ شریک کیساتھ کیا جاتا ہے، اجیر کیساتھ نہیں ہوتا۔

2- فقہائے کرام نے تجارتی شراکت "شراکت عنان" [ایسی شراکت جس میں تمام شریک برابر سرمایہ نہیں لگاتے اور سرمایہ کے تناسب سے نفع حاصل کرتے ہیں]میں کسی بھی شراکت دار کو تناسب  سے زائد ملنے والے نفع کو ایسی صورت میں جائز قرار دیا ہے جب وہ اس شراکت کیلئے اضافی کام بھی کرے، بلکہ کچھ فقہائے کرام نے اس زائد نفع کی موجودگی   کوشراکت عنان کے درست ہونے کی شرط بھی قرار دیا ہے۔

زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر کوئی شراکت کیساتھ مضاربت بھی  کرے یعنی: دو افراد کا مال ہو اور ایک شخص ساتھ میں کام بھی کرے، مثلاً: ہر ایک شراکت دار  ایک ہزار ادا کرے اور ان دونوں میں سے ایک کام کرے، تو یہاں کام کرنے والے شراکت دار کیلئے دوسرے سے زیادہ  منافع ہونا شرط ہے، مثال کے طور پر اس کیلئے دو تہائی  یا نصف یا چوتھائی حصہ مقرر کر دیا جائے،  تا کہ زائد ملنے والا نفع اس کی محنت کا معاوضہ بن سکے" انتہی
" شرح الزركشی على مختصر الخرقی" (4/ 131)

اس نوعیت کی شراکت جائز ہے، اور اس کا تفصیلی بیان پہلے سوال نمبر: (165923) میں گزر چکا ہے۔

اس سے یہ واضح ہوگیا کہ کمپنی کی ادارت کے بدلے میں تناسب کی شکل  میں وصول ہونے والا منافع اجرت نہیں ہے۔

دوم:

سوال میں بیان شدہ تفصیلات کی زکاۃ  اس طرح سے ہوگی:

1- کمپنی کے رأس المال  میں حصہ کی زکاۃ  اس کمپنی   کی جن چیزوں پر زکاۃ لاگو ہوتی ہے ان کے حساب سے ہوگی، چنانچہ  کمپنی کے قیام کے وقت  لگائے جانے والے سرمایہ کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ جو خام مال یا تیار شدہ مال تجارت کی غرض سے خریدا گیا ہے سال مکمل ہونے پر ان کی قیمت فروخت دیکھ لی جائے  اور ان کیساتھ  کمپنی  میں موجود نقد رقم ، بینک اکاؤنٹ  میں موجود رقم اور کمپنی کے مارکیٹ میں موجود ایسے واجبات جن کے ملنے کی امید ہے ان سب کو ملا کر اس میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کی جائے گی۔

2- اسی طرح کمپنی میں شراکت کی وجہ سے ملنے والے منافع  کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کی  بھی رأس المال کیساتھ ملا کر زکاۃ ادا کر دی جائے گی۔
پہلے  کمپنی کے رأس المال اور منافع سے زکاۃ ادا کرنے کی کیفیت بیان کی جا چکی ہے، آپ اس کا مطالعہ کریں: (72315)

3- کمپنی کی ادارت کے بدلے میں ملنے والے منافع  کی زکاۃ ادا کرنے سے متعلق علمائے کرام کا اختلاف ہے، صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس میں بھی زکاۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے، بالکل اسی طرح جیسے کمپنی میں شراکت سے حاصل ہونے والے منافع میں زکاۃ واجب ہوتی ہے، چاہے  منافع  ابھی تقسیم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مضاربت کرنے والے شخص کے حصہ میں زکاۃ واجب ہوتی ہے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے۔
صحیح یہی ہے کہ جب اس پر سال گزر جائے اور اسے ابھی تک تقسیم نہ کیا گیا ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہوگی؛ کیونکہ یہ ایسے مال سے حاصل شدہ منافع ہے جس پر زکاۃ واجب ہے، چنانچہ اس نفع پر  بھی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اور یہ طریقہ کار لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک رائج ہے  کہ جب کسی مال میں زکاۃ واجب ہو جائے تو رأس المال سمیت منافع سے بھی زکاۃ ادا کی جائے گی" انتہی
" التعليق على الكافي" (3/121)

اس بات کا تفصیلی بیان پہلے سوال نمبر: (139631) کے جواب میں گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب