الحمد للہ.
اول:
اگر کسی خاتون کو فوری طور پر کسی بھی قسم کا طبی معائنہ کروانا پڑے جس کیلیے روزہ توڑنا لازمی ہو ، مثال کے طور پر الٹرا ساؤنڈ چیک اپ سے پہلے مشروبات پینا لازمی ہوتا ہے، اور اگر چیک اپ میں تاخیر کی جائے تو شفا یابی میں تاخیر ہوگی، یا اصل مرض تلاش کرنے میں تاخیر ہو گی یا کوئی اور اس کے منفی اثرات ہیں تو پھر ایسی خاتون کا حکم مریض والا ہوگا، چنانچہ وہ خاتون اس دن روزہ کھول لے اور پھر اس کی بعد میں قضا دے دے۔
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"جس مریض کو روزہ رکھنے کی وجہ سے مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، یا روزہ رکھنے کی وجہ سے بیماری بڑھ جائے یا شفا یابی میں تاخیر ہو تو اس کیلیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے" انتہی
"مجموع فتاوى الشيخ صالح بن فوزان" (2/ 407)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (12488) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
سائلہ نے یہ بات واضح نہیں کی کہ طبی تشخیص کی کیا نوعیت ہو گی جس کی وجہ سے غسل کرنا پڑے گا۔
اگر تشخیص کیلیے منی کا اخراج ضروری ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:
1- اگر منی شہوت سے خارج ہو تو پھر غسل واجب ہو گا اور روزہ بھی ٹوٹ جائے گا، چنانچہ اس خاتون کو اس روزے کی قضا دینا ہو گی، تاہم اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
2- اور اگر منی شہوت کے بغیر خارج ہو تو غسل واجب نہیں ہو گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہو گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/ 128) میں کہتے ہیں:
"اگر ہاتھ سے مشت زنی کرے تو اس نے حرام کام کا ارتکاب کیا، نیز منی خارج ہونے پر ہی اس کا روزہ فاسد ہو گا، اور اگر منی شہوت کے بغیر خارج ہو جائے جیسے کہ بیماری کی وجہ سے منی یا مذی کا اخراج ہوتا ہے تو اس صورت میں اس پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ منی شہوت کے بغیر خارج ہوئی ہے، تو اس کا پیشاب والا حکم ہو گا، نیز بغیر شہوت کے نکلنے والی منی بے اختیاری طور پر خارج ہوتی ہے، اس صورت میں منی خارج ہونے پر اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا تو اس طرح اس کا حکم احتلام والا ہوگا" انتہی
لیکن اگر تو طبی تشخیص رات کے وقت ممکن ہو تو پھر صرف رات کو ہی کروا ئی جائے دن میں کروانا جائز نہیں ہوگا۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (84409) کا جواب ملاحظہ کریں
واللہ اعلم.