جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

روزہ صحیح ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ با جماعت نماز ادا کریں۔

سوال

سوال: نماز با جماعت کی فرضیت کے قائلین کے ہاں ایسے روزہ دار کا کیا حکم ہے جو نماز با جماعت ادا نہیں کرتا؛ نماز با جماعت ادا نہ کرنے وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو جماعت کروانے والا شخص سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے واضح غلطیاں کرتا ہے، تو کیا اس صورت میں یہ شخص اپنی والدہ کو زبردستی اپنے ساتھ نماز پڑھنے کیلئے مجبور کر سکتا ہے تا کہ با جماعت نماز ادا ہو؟ یا پھر ایسے شخص کو گھر میں اکیلے نماز پڑھنے پر بھی جماعت کا ثواب مل جائے گا، کیونکہ اسے جماعت سے نماز ادا نہ ہونے پر شدید ندامت اور پریشانی بھی ہوتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزوں کے صحیح ہونے کیلئے مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام شرط نہیں ہے، حتی کہ ان فقہاء کے نزدیک بھی ایسا کرنا ضروری نہیں ہے جو نماز با جماعت ادا کرنے کو واجب کہتے ہیں، ان میں سے کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ: "نماز با جماعت ادا کرنے سے ہی روزہ صحیح ہوگا" یا اکیلے نماز پڑھنے سے روزے کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے،  اللہ تعالی کے عدل کا تقاضا ہے کہ  روزے جیسی عظیم عبادت  کو نماز جیسی عبادت کی با جماعت ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ضائع مت فرمائے؛ اس لیے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا )
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی ایک ذرے کے برابر بھی ظلم نہیں فرماتا، اور اگر نیکی ہو تو اسے بڑھا دیتا ہے، [پھر] جسے چاہتا ہے اپنی طرف سے اجر عظیم سے نوازتا ہے۔[النساء:40]

اسی طرح فرمایا:
 ( فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ [7] وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ )
ترجمہ: چنانچہ جو شخص بھی ذرہ بھر نیکی کریگا وہ اسے دیکھ لے گا [7] اور جو شخص ذرہ بھر گناہ کریگا  اسے بھی دیکھ لے گا۔[الزلزلة:7- 8]

سائل کو  ہم یہ بھی نصیحت ہی کرینگے کہ ان کے سوال میں مذموم  تکلف اور بال کی کھال اتارنے کا مظاہرہ کیا گیا ہے:

1- سب سے پہلے تو روزے کی درستگی کو نماز با جماعت سے منسلک کیا گیا، اور اس کا حکم پہلے بیان کر دیا گیا ہے۔

2- دوسری بات والدہ کو  زبردستی اپنے بیٹے کیساتھ نماز با جماعت ادا  کرنے پر مجبور  کرنے سے متعلق ہے، کیونکہ ایک مسلمان کو والدین کے عظیم حقوق کا مکمل ادراک ہونا چاہیے، بلکہ بیٹے پر والدین کیساتھ نرمی، کامل ادب و احترام، میٹھے بول، اور حسن معاشرت  واجب ہے، تو ان سب باتوں کیساتھ  والدین پر سختی اور زبردستی  کیسے ممکن ہے؟ اور کیا کسی کو عبادت پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟ پھر کیا جبراً ادا کی ہوئی عبادت صحیح ہوگی!! اور اگر والدہ کیساتھ  زبردستی کی گئی ہو  جس کی شان و منزلت ، مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے! تو پھر کیا ہوگا؟!!
ان سب باتوں کی وجہ سے  ہمیں اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ آپ نماز با جماعت  ترک کرنے کا اصل سبب تلاش کریں، ہمیں امید ہے کہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نماز با جماعت ادا کرنے سے روکنے کیلئے شیطان آپ کے ذہن میں اس قسم کی باتیں ڈال رہا ہے کہ امام فاتحہ پڑھتے ہوئے  واضح غلطیاں کرتا ہے!

اسے آپ بعید مت سمجھنا! کیونکہ شیطان  انسان کو روکنے کیلئے  اللہ کے ہر راستے پر بیٹھتا ہے، پھر اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دنیاوی اور دینی امور کیلئے تشدد اور بلا وجہ تکلف میں  مبتلا کر دے، اس لیے آپ  اپنے آپ کو شیطان کیلئے آسان ہدف مت بنائیں، آپ  علم کے ذریعے اعتدال اور میانہ روی حاصل کریں۔

بہر حال ! نماز با جماعت کے اسباب اختیار  کر تے  ہوئے اپنی کوشش کرنے کے با وجود اگر کسی شخص  کو  نماز با جماعت  بیماری وغیرہ جیسے متفقہ شرعی عذر کی بنا پر نہیں ملتی تو  ہمیں اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی اس کیلئے اپنے فضل و کرم سے کامل با جماعت نماز ادا کرنے اجر لکھ دے گا،  جیسے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب کوئی انسان بیمار ہو جائے یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے اعمال ایسے ہی لکھے جاتے ہیں ، جیسے وہ صحت یا مقیم ہونے کی حالت میں کرتا تھا) بخاری

علامہ سعدی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اعمال کا ثواب عمل کرنے والے کے ایمان و اخلاص کی بنیاد پر  کم زیادہ ہوتا رہتا ہے، حتی کہ بسا اوقات  محض سچی نیت کیساتھ اسباب اختیار کرنے والے شخص کو  مکمل عمل کرنے والے کے برابر ثواب مل جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلى اللهِ )
ترجمہ: جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کیلئے نکل پڑا ، اور پھر اسے موت آ جائے ، تو اس کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہو چکا ہے۔[النساء:100]

اسی طرح صحیح  بخاری میں مرفوع حدیث ہے کہ: (جب کوئی انسان بیمار ہو جائے یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے اعمال ایسے ہی لکھے جاتے ہیں ، جیسے وہ صحت یا مقیم ہونے کی حالت میں کرتا تھا)

اسی طرح یہ بھی ہے کہ: (بیشک مدینہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، تم  کسی بھی جگہ گئے ہو، یا کسی بھی وادی کو تم نے عبور کیا تو وہ بھی [اپنی نیتوں، دلی  رائے، اور ثواب کے اعتبار سے]تمہارے ساتھ  تھے، انہیں کسی عذر نے روک لیا تھا )
چنانچہ اگر کوئی شخص نیکی کرنے کا پختہ عزم کر لے، تو اس کے عزم و نیت  کے مطابق اس کے کھاتے میں مکمل نیکی لکھی جاتی ہے" انتہی
" بهجة قلوب الأبرار وقرة عيون الأخيار " (ص16)

اس بارے میں مزید جاننے کیلئے جواب نمبر: (194317) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب