الحمد للہ.
اول:
اگر اس گھرانے کے کفیل کی اتنی آمدن ہے جو اس کی اور اہل خانہ کی
ضروریات پوری نہیں کرتی تو یہ فقیر و غریب کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے انہیں زکاۃ
دینا جائز ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا
وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ ....
)
ترجمہ: بیشک زکاۃ فقراء، مساکین، زکاۃ جمع کرنےو الے، اور تالیف قلبی ۔۔۔کیلئے ہے۔[التوبة:60]
چنانچہ اس گھرانے کو جو شخص بھی زکاۃ دے رہا ہے چاہے ان کا داماد ہے یا کوئی اور وہ گھر کے سربراہ کی آمدن دیکھ کر مطلوبہ مقدار میں اتنی زکاۃ دیں کہ وہ پورا سال کافی ہو جائے، کیونکہ اہل علم نے یہ صراحت کی ہے کہ فقیر شخص کو پورے سال کی ضروریات پوری کرنے کے برابر زکاۃ دی جائے؛ کیونکہ زکاۃ ایک سال بعد دی جاتی ہے، اور اس مسئلے کا ذکر پہلے فتوی نمبر: (111884) میں گزر چکا ہے۔
اس لیے انہیں ان کی ضرورت سے بڑھ کر دینا جائز نہیں ہے، بلکہ انہیں بھی فقیر بن کر اپنی ضرورت سے زیادہ زکاۃ لینے کی اجازت نہیں ہے، ہم نے پہلے دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا فتوی ذکر کیا ہے کہ فقیر شخص کو اپنی ضرورت سے بڑھ کر زکاۃ لینے کی اجازت نہیں ہے، اس کیلئے آپ فتوی نمبر: (179635) کا مطالعہ کریں۔
اگر زکاۃ دینے والے شخص کو اس عورت کی جانب سے غیر دانشمندانہ خرچ کا خدشہ ہو کہ غیر ضروری اشیا میں زکاۃ کی رقم اڑا دے گی تو زکاۃ کی رقم اس تک یا اس کے بیٹوں تک نہ پہنچنے دے، بلکہ گھر کے سربراہ کے ہاتھ میں براہِ راست تھمائے۔
اس کے سربراہ کو نصیحت کر دے کہ وہ اپنے ہاتھ سے خرچ کرے، اور یہ بھی اسے بتا دے کہ اس کی بیوی اور بچے کس طرح رقم کو فضول خرچی سےاڑاتے ہیں۔
اور اگر یہ طریقہ کار گر ثابت نہ ہو تو ان کی ضروریات کی چیزیں خود سے خرید کر انہیں پہنچا دے، اس طرح زکاۃ دینے والا شخص ان کی ضروریات کی چیزیں خریدنے میں وکیل شمار ہوگا۔
اس بات کی طرف اشارہ پہلے سوال نمبر: (42542) میں گزر چکا ہے۔
دوم:
زکاۃ ادا کرنے والے کو یہ تاکید کر لینی چاہیے کہ جس کو زکاۃ ادا کر رہا ہے وہ
غالب گمان کے مطابق واقعی زکاۃ کا مستحق ہے، چنانچہ اگر کسی شخص نے غالب گمان کے
مطابق کسی کو زکاۃ کا مستحق سمجھا اور اسے زکاۃ دے دی، پھر بعد میں واضح ہوا کہ وہ
زکاۃ کا مستحق نہیں تھا، تو اس کی زکاۃ ادا ہو چکی ہے، اسے دوبارہ زکاۃ ادا کرنے کی
ضرورت نہیں ہے، تاہم زکاۃ وصول کرنے والے پر گناہ ہوگا کیونکہ اس نے ایسی چیز وصول
کی ہے جس کا وہ مستحق ہی نہیں تھا۔
پہلے اس بارے میں تفصیلی فتوی (179635) میں گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.