جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حاجی پر فرض ہدی [قربانی] اور اسے ذبح کرنے کی جگہ

سوال

کیا حج کی قربانی یعنی ہدی کا جانور حدود حرم سے باہر ذبح ہو سکتا ہے اور کیا اسے حاجی کے شہر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ وہاں غریبوں کی بہتات ہے؟ اگر حاجی اس طرح کر لے تو اس کے حج کا کیا حکم ہے؟ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ کتاب و سنت سے دلائل دیں کہ کیا  ہدی کا جانور  ذبح کرنے والی جگہ پر ہی ذبح کیا جائے گا، نیز یہ کس لیے ضروری ہے کہ ہدی کا جانور حدود حرم میں ہی ذبح ہو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حج کے دوران حاجی پر واجب ہونے والے ذبیحوں کی متعدد اقسام ہیں:

پہلی قسم:

حج تمتع یا قران کی قربانی  جسے اصطلاحاً ہدی کہا جاتا ہے، چنانچہ حج تمتع یا قران کرنے والے شخص پر ہدی کی استطاعت کی صورت میں ہدی ذبح کرنا واجب ہے، اگر استطاعت نہ ہو تو پھر روزے رکھے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر ہو۔ اور اگر میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندے نہ ہوں۔ اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے  [البقرة: 196]

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ: جب تم مناسک حج و عمرہ ادا کرنے کی حالت میں ہو تو جو عمرے کے ساتھ حج کا فائدہ بھی اٹھائے یعنی جو عمرے اور حج دونوں کا  احرام اکٹھا باندھے [یعنی حج قران کرے] یا پھر عمرے کا احرام پہلے باندھے اور پھر عمرے سے فارغ ہونے کے بعد حج کا احرام باندھے [یعنی حج تمتع کرے]  -فقہائے کرام جب تمتع کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے یہی آخری صورت مراد ہوتی ہے-  تو پھر فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ترجمہ: وہ قربانی کرے جو اسے میسر ہو۔]یعنی: جس ہدی کی استطاعت ہو تو وہ اسے ذبح کرے اور اس کی کم از کم صورت بکری ہے" ختم شد
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (1/537)

اس ہدی کے ذبح ہونے کی جگہ حرم مکی ہے۔

اس بارے میں ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں اختلاف نہیں ہے کہ ہدی کو حرم میں ذبح کرنا لازمی امر ہے" ختم شد
" أحكام القرآن " (2/186)

" الموسوعة الفقهية " (42/250 – 251) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ ہدی کی قربانی محصور ہو جانے کے علاوہ  حدود حرم کے ساتھ مختص ہے، لہذا کسی بھی ہدی کے جانور کو حدود حرم سے باہر ذبح کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے شکار کے عوض ذبح ہونے والے جانور کے متعلق فرمایا ہے کہ: هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ  [یعنی: ہدی کعبہ تک پہنچنے والی ہو]اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:   ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ   [یعنی: پھر اس قربانی کی جگہ بیت عتیق ہے۔]نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میں نے یہاں پر جانور کو نحر کیا ہے اور منی سارے کا سارے ذبح کرنے کی جگہ ہے، اس لیے تم اپنے پڑاؤ کی جگہ میں ذبح کر لو) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مکے کی ساری گلیاں راستے اور ذبح کرنے کی جگہ ہیں)" ختم شد

ہدی کے گوشت کے متعلق واجب یہ ہے کہ:
اس گوشت میں سے کچھ حصہ فقرائے حرم اور حرم کے مساکین میں تقسیم کیا جائے، نیز اس میں سے کچھ حصہ کھانے اور تحفہ دینے کیلیے حرم سے باہر لے جانا جائز ہے۔

اس کی دلیل سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ آپ کہتے ہیں: "ہم اپنے قربانی کے اونٹوں کا گوشت تین دن سے زیادہ منی میں کھایا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا: (کھاؤ بھی اور ساتھ بھی لے جاؤ) تو ہم نے خود بھی کھایا اور ساتھ بھی لے گئے" اس حدیث کو بخاری: (1719) اور مسلم: (1972) نے روایت کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج تمتع اور حج قران کی قربانی شکرانے کی قربانی ہے، اس لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا سارا گوشت مساکین حرم میں تقسیم ہو بلکہ اس کا حکم عید کے دن کی قربانی جیسا ہے، یعنی اس میں سے خود بھی کھایا جائے گا، دوسروں کو تحفہ بھی دیا جائے گا اور حرم کے مساکین پر صدقہ بھی کیا جائے گا۔

اس لیے اگر کوئی شخص مکہ میں حج تمتع اور قران کی قربانی کرے اور پھر اس کا گوشت لے کر شرائع یا جدہ یا کسی اور جگہ چلا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اتنا ضروری ہے کہ اس میں سے کچھ حصہ حرم کے مساکین پر صدقہ ضرور کرے۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (7/203 )

دوسری قسم:

وہ جانور جو حج کے کسی واجب کام کے ترک کرنے پر ذبح کیا جائے، چنانچہ جو شخص حج کا کوئی واجب کام چھوڑ دے تو یہ کمی ایک بکری ذبح کر کے پوری کی جا سکتی ہے۔

اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "جو شخص مناسک میں سے کچھ بھول جائے یا ترک کر دے تو وہ ایک خون بہائے" اس اثر کو امام مالک نے موطا (1583)میں روایت کیا ہے۔

یہ ذبیحہ بھی حدود حرم میں ہو گا اور اس کا گوشت بھی حرم میں ہی تقسیم کیا جائے گا۔

اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام نے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے  اور کہا ہے کہ: حج تمتع اور حج قران کی ہدی، ترک واجب پر لازم ہونے والا ذبیحہ  ضروری ہے کہ انہیں مکہ میں ذبح کیا جائے، اللہ تعالی نے شکار کے عوض ذبح کیے جانے والے جانور کے متعلق صراحت سے فرمایا کہ:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ
ترجمہ:  اے ایمان والو ! تم حالت احرام میں شکار نہ مارو۔ اور جس نے دیدہ دانستہ شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار کے ہم پلہ جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں اور یہ جانور کعبہ لے جا کر قربانی کیا جائے ۔[المائدة: 95]

تو جو چیز شریعت میں کسی جگہ کے ساتھ نتھی کر دی جائے تو اسے اس جگہ سے کسی اور جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ اس چیز کو اسی جگہ میں سر انجام دیا جائے، لہذا ہدی کی تمام اقسام مکہ میں ذبح ہوں گی اور مکہ میں انہیں تقسیم کیا جائے گا" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (25/83)

تیسری قسم:

جو ذبیحہ حجاج کسی ممنوعہ کام کے ارتکاب پر ذبح کریں۔

اس کے بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"احرام کی حالت میں حرام کام کا ارتکاب  کرنے پر بھی نص قرآنی سے ثابت ہے کہ ذبیحہ  ذبح کرنا ہو گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ
ترجمہ: اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔ اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی تمہیں میسر آئے وہی کر دو۔ اور اپنے سر اس وقت تک نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف  ہو (تو سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کر دے۔ [البقرة: 196]" ختم شد
" الشرح الممتع " (7/408)

مزید کیلیے آپ " الجامع لأحكام القرآن " از قرطبی  رحمہ اللہ (3/292 - 293) کا مطالعہ بھی کریں۔

اگر کسی شخص پر حرام کام کے ارتکاب کی وجہ سے ذبیحہ لازم ہو جائے تو اسے اختیار ہے کہ جس جگہ پر حرام کام کا ارتکاب ہوا ہے وہیں پر جانور ذبح کرے  اور وہیں پر ہی لوگوں میں گوشت تقسیم کر دے، چاہے وہ جگہ حدود حرم کے اندر ہو یا باہر ، یا پھر وہ یہ ذبیحہ حدود حرم میں ذبح کرے اور حرم میں ہی اسے تقسیم کر دے۔

اس کی دلیل کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھا کہ اس کے چہرے پر جوئیں گر رہی ہیں، تو آپ نے فرمایا: (کیا تمہیں ان حشرات سے تکلیف ہو رہی ہے؟) تو انہوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سر منڈوانے کا حکم دیا ، آپ اس وقت حدیبیہ کے مقام پر تھے، اور ان کیلیے واضح نہیں تھا  کہ وہ حدیبیہ میں ہیں ، تاہم وہ مکہ داخل ہونے سے پر امید تھے، تو اللہ تعالی نے فدیہ کی آیات نازل فرما دیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کعب بن عجرہ کو حکم دیا کہ وہ ایک ٹوپہ [حدیث میں "فرق" کا لفظ ہے جو تین صاع کا ہوتا ہے، یعنی ہر فرد کو نصف صاع کھانا دے دے۔ مترجم]چھ افراد میں تقسیم کر دے ، یا بکری ذبح کر دے یا تین دن کے روزے رکھ لے۔" بخاری: (1817) مسلم: (1201)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"جس ذبیحے کو حدود حرم سے باہر جہاں اس کا سبب پایا گیا تھا ذبح کرنا ا ور اس کا گوشت تقسیم کرنا جائز ہو تو اس کو حرم میں ذبح کر کے تقسیم کرنا  بھی جائز ہے، لیکن اس کے الٹ نہیں ہو سکتا" ختم شد
" الشرح الممتع " (7/204)

اسی قسم میں وہ اونٹ بھی شامل ہوتا ہے جو محرم کو تحلل اول سے قبل بیوی کے ساتھ جماع کرنے پر لازم آتا ہے:

اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ارتکاب کردہ ممنوعہ عمل جماع ہو جو کہ حج میں تحلل اول سے پہلے کیا گیا ہو تو اس میں اونٹ واجب ہو گا جو کہ اسی جگہ ذبح کیا جائے گا جہاں جماع ہو ا ، یا پھر اسے مکہ میں ذبح کر کے فقرائے حرم میں تقسیم کر دیا جائے گا" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (22/222)

چوتھی قسم:

وہ جانور جو محصور ہو جانے کی صورت میں ذبح کیا جائے، یعنی حج یا عمرہ مکمل کرنے میں رکاوٹ کھڑی ہو گئی  تو ایسی صورت میں جانور ذبح کرنا پڑتا ہے۔

اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ
ترجمہ: اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔ اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی تمہیں میسر آئے وہی کر دو۔   [البقرة: 196]

تو اس کا حکم بھی سابقہ قسم والا ہی ہے؛ اس لیے اسے بھی اسی جگہ ذبح کر دیا جائے گا جہاں اس کیلیے رکاوٹ کھڑی ہوئی؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جس وقت حدیبیہ کے وقت مکہ میں داخل ہونے سے روکا  گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قربانی کو حدود حرم سے باہر ہی نحر کر دیا تھا۔

نیز اس جانور کو حدود حرم کے اندر بھی ذبح کر کے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اس کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ  کی یہ حدیث ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  عمرے کی غرض سے روانہ ہوئے تو قریشی کافروں نے  آپ کو مکہ داخل ہونے سے روک دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہدی کے جانور کو حدیبیہ میں ہی نحر کر دیا اور اپنا سر منڈوا لیا" بخاری: (4252)

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس واقعے کا ظاہری قصہ یہی لگتا ہے کہ سب نے اپنی اپنی جگہ پر ہی اپنے جانور ذبح کر دئیے تھے، اور وہ اس وقت حدود حرم سے باہر تھے، تو اس سے جواز کشید ہوتا ہے، واللہ اعلم" ختم شد
" فتح الباری " (4/11)

پانچویں قسم:

جو ذبیحہ شکار کرنے کے عوض میں ذبح کیا جائے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے حدود حرم کے اندر ذبح کیا جائے گا اور حرم میں ہی تقسیم ہو گا، بیرون حرم ذبح کرنے پر کفایت نہیں کرے گا۔

اس بارے میں فرمان باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ
ترجمہ: اے ایمان والو ! تم حالت احرام میں شکار نہ مارو۔ اور جس نے دیدہ دانستہ شکار مارا تو اس کا بدلہ مویشیوں میں سے اسی شکار   کے ہم پلہ جانور ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں اور یہ جانور کعبہ لے جا کر قربانی کیا جائے۔ یا چند مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اس کے برابر روزے رکھنا اس کا کفارہ ہے۔ یہ اس لیے کہ وہ اپنے کام کی سزا چکھے۔ جو کچھ اس حکم سے پہلے ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور جو اب اس کا اعادہ کرے گا اللہ اس سے بدلہ لے گا اور اللہ تعالی غالب ہے بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے  [المائدة: 95]

اس کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ یعنی کعبہ تک پہنچنے والی، مطلب یہ ہے کہ حرم تک پہنچنے والی، یعنی وہاں پر اسے ذبح کیا جائے، اور اس کا گوشت حرم کے مساکین پر تقسیم کیا جائے، اس صورت میں تمام کا اس بات پر اتفاق ہے" ختم شد
" تفسير ابن كثير " (3/194)

سابقہ تمام تر تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ جس ذبیحے کو حرم میں ذبح کرنا شرعی عمل ہو تو اسے خارج از حرم ذبح کرنا جائز نہیں ہے، لیکن جس کو بیرون حرم میں ذبح کرنا جائز ہو تو اسے اندرون حرم میں ذبح کرنا جائز ہے۔

جو شخص اپنے حج کے تمام ارکان مکمل کرے لیکن وہ اپنے حج کی قربانی حرم سے باہر کرے تو اس کا حج صحیح ہے، لیکن اس پر ضروری ہے کہ وہ اس کے متبادل کے طور پر ایک اور جانور حرم کے اندر ذبح کرے، اگر وہ خود مکہ جانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کسی معتمد شخص کو حرم کے اندر ذبح کرنے پر مامور کر دے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج تمتع اور قران کی قربانی صرف حدود حرم کے اندر ہی کی جا سکتی ہے، چنانچہ اگر وہ حرم کے علاوہ کسی اور جگہ ذبح کر دیتا ہے جیسے کہ عرفات، جدہ وغیرہ میں تو اس کی یہ قربانی نہیں ہو گی، چاہے اس کا گوشت وہ حرم میں ہی تقسیم کرے، اس پر حدود حرم میں ایک اور ہدی لازم ہے، چاہے اسے اس چیز کا علم تھا یا نہیں تھا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہدی حدود حرم میں نحر کی تھی اور آپ نے فرمایا تھا: (مجھ سے مناسک حج سیکھ لو) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام نے بھی آپ کی اقتدا کرتے ہوئے حدود حرم میں ہی اپنی قربانیاں کی تھیں" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (18/31 - 32)

دوم:

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ:
" یہ کس لیے ضروری ہے کہ ہدی کا جانور حدود حرم میں ہی ذبح ہو؟"

تو ہدی کو درج ذیل دلائل کی وجہ سے حدود حرم میں ذبح کیا جاتا ہے:

  1. کتاب و سنت میں اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کتاب و سنت کی اتباع ہم پر لازمی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا
ترجمہ: کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کر دے تو ان کے لئے اپنے معاملہ میں کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی  کرے تو وہ یقیناً صریح گمراہی میں جا پڑا۔ [الأحزاب: 36]

مزید فرمایا:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے۔  [الحشر: 7]

تو ان ذبیحوں کا معاملہ بھی حج کے دیگر مناسک کی طرح ہے، بلکہ دیگر تمام عبادات کی طرح ہے، ان میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل ہو گی اور ان میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کیوں ایسے حکم دیا گیا ہے؟

صحیح بخاری: (315) اور مسلم: (335) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کی سرزنش کی تھی جس نے پوچھا تھا کہ حائضہ روزے تو بعد میں رکھتی ہے لیکن نماز کیوں نہیں پڑھتی؟ اور آپ نے اسے کہا تھا کہ: "ہمیں حیض آتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا"

اور اسی طرح امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"تعبدی امور  میں اسباب اور وجوہات بغیر کسی اونچ نیچ کے محض تابعداری ہی ہوتی ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حائضہ کے روزوں کی قضا کے بارے میں پوچھا گیا کہ نماز کی قضا تو نہیں دیتی روزوں کی کیوں دیتی ہے؟ تو انہوں نے ایسا سوال کرنے والی خاتون کو ڈانٹا ؛ کیونکہ عبادت تو ہوتی ہی تب ہے جب اس کا حکم دینے کی وجہ معلوم نہ ہو ، پھر انہوں نے کہا تھا: "ہمیں حیض آتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا"  اس طرح یہ بھی سمجھ میں آتا  ہے تعبدی امور میں مشقت کی بجائے عبادت اور بندگی کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح ابن مسیب رحمہ اللہ نے تمام انگلیوں کی دیت برابر رکھنے کے متعلق کہا تھا: "بھتیجے سنت یہی ہے"[یعنی تمام انگلیوں کی دیت برابر ہو انگوٹھے کو چھنگلی پر فوقیت نہیں دی جا سکتی]" ختم شد
ماخوذ از موافقات : (2/ 526)

  1. کیونکہ جانور ذبح کرنا بھی حج کے اعمال میں سے ایک عمل ہے، اور حج کا تعلق مکہ مکرمہ سے ہے، اور حج کے زیادہ تر اعمال حدود حرم کے اندر ہی سر انجام دئیے جاتے ہیں ، تو اس طرح ہدی کو بھی حدود حرم میں ذبح کرنا حج کی ادائیگی کیلیے مقرر کی گئی اصل جگہ کے مطابق ہو گا۔
  2. ہدی کو حدود حرم میں ذبح کر کے وہیں پر تقسیم کرنا اس جگہ کے مساکین  کیلیے بھی آسانی کا باعث ہے، ممکن ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول کرنے کے بعد یہاں رہنے والوں کیلیے رزق کے بندوبست میں شامل ہو، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
    ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے قابل احترام گھر کے پاس ایسے میدان میں لا بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔ تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پروردگار ! بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں کھانے کو پھل مہیا فرما۔ تا کہ وہ شکر گزار رہیں [إبراهيم: 37]

مزید کیلیے آپ ابن قدامہ رحمہ اللہ کی کتاب: " المغنی" (5/451 ) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب