جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

وضو کرتے ہوئے باریک جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے؟

228222

تاریخ اشاعت : 16-07-2016

مشاہدات : 39287

سوال

میں نے ایک درس میں سنا تھا کہ علمائے کرام نے ایسی جرابوں پر مسح کرنا جائز قرار دیا ہے جس میں سے انسانی جلد نظر نہ آئے، لیکن میں نے یہ پڑھا ہے کہ بعض نے شفاف جرابوں پر مسح کرنا بھی جائز قرار دیا ہے، تو ان دونوں میں سے کون سا موقف درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

احادیث مبارکہ میں موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔

جبکہ جرابوں کو جمہور علمائے کرام نے موزوں کیساتھ منسلک کیا ہے۔

جراب اصل میں خلیل فراہیدی کے مطابق: پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔
دیکھیں: "العين" (6/113)

اسی طرح "مواهب الجليل" (1/318) میں ہے کہ:
" موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب  کہتے ہیں" انتہی

اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ : موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون ، سن یا سوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔

اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔

دوم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔

لیکن جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند: " أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة "روایت کیا ہے  کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا"
تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔

امام ابو داود رحمہ اللہ سنن ابو داود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
"عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے" انتہی

اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ  نے روایت کیا ہے، لیکن ہزیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا " انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
"میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا  تو انہوں نے کہا:
"ابو قیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی (1/284)

نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" امام ترمذی کا اس حدیث کے بارے میں کہنا کہ یہ حدیث حسن ہے ، اس پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہوگی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے" انتہی
"المجموع شرح المهذب" (1/500)

لیکن جرابوں پر مسح کرنا صحابہ کرام سے ثابت ہے

چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو صحابہ کرام سے جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن ابی طالب، عمار بن یاسر، ابو مسعود، انس بن مالک، ابن عمر، براء بن عازب، بلال، ابو امامہ، اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم اجمعین "انتہی
"الأوسط " (1/462)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو داود نے ان کی تعداد میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا: ابو امامہ،  عمرو بن حریث، عمر  فاروق اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ان میں شامل ہیں۔
لہذا جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں دلیل صحابہ کرام کا عمل ہے، ابو قیس کی روایت نہیں ہے۔
نیز امام احمد نے جرابوں پر مسح کو صراحت کیساتھ جائز قرار دیا ہے، لیکن ابو قیس کی روایت کو کمزور کہا ہے۔

یہ امام احمد رحمہ اللہ کا علمی عدل و انصاف ہے کہ انہوں نےجرابوں پر مسح کیلئے دلیل صحابہ کرام کا عمل، اور صریح قیاس کو رکھا ہے؛ کیونکہ جرابوں اور موزوں کے مابین کوئی مؤثر فرق نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے دونوں کا حکم الگ الگ کیا جائے" انتہی
"تهذيب السنن" (1/187)

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا اور ان کے زمانے میں کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی تو اس طرح ا س پر اجماع ہو گیا " انتہی
"المغنی" (1/215)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جرابوں اور جوتوں میں فرق صرف اور صرف یہ ہے کہ جرابیں اون کی ہوتی ہیں اور جوتے چمڑے کے ہوتے ہیں۔
چنانچہ یہ بات تو واضح ہے کہ : اس قسم کا فرق شرعی احکام میں مؤثر نہیں ہوتا، اس لیے چمڑے ، سوت، سن، یا اون کسی بھی چیز کے ہوں سب کا حکم ایک ہی ہوگا۔
بالکل اسی طرح جیسے سیاہ یا سفید احرام کی چادر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ چمڑا اون سے زیادہ دیر تک  چلتا ہے، لیکن اس سے شرعی حکم پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے، نیز چمڑے کے مضبوط ہونے سے بھی کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔۔۔
اور یہ بھی وجہ ہے کہ: جیسے چمڑے کے بنے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح اون وغیرہ کی بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، دونوں میں مسح کرنے کی ضرورت اور حکمت بالکل یکساں ہیں، لہذا اگر ان دونوں کا حکم یکساں نہ رکھا گیا تو یہ دو ایک جیسی چیزوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے مترادف ہوگا جو کہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ عدل اور قیاس صحیح پر مبنی موقف سے متصادم ہے، اور جو [موزے اور جرابوں میں مسح کا حکم الگ الگ رکھنے کیلیے ]یہ فرق بیان کرے کہ جراب میں سے پانی رس کر انسانی جلد تک پہنچ جائے گا اور موزے میں نہیں رسے گا تو یہ غیر مؤثر فرق ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/214)

سوم:

جرابوں پر مسح کی اجازت دینے والے اکثر علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ: جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ انہیں پہن کر آپ چل سکیں۔
دیکھیں: "المبسوط" (1/102) ، "المجموع" (1/483) ، "الإنصاف" (1/170)

 کیونکہ جرابوں کا حکم موزوں والا ہی ہے، اور موزے شفاف اور باریک نہیں ہوتے، اس لیے موزوں کے حکم میں وہی جرابیں ہوں گی جو شفاف اور باریک نہ ہو ں بلکہ موزے کی طرح موٹی ہوں۔

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں "انتہی
"بدائع الصنائع" (1/10)

اسی طرح ابن قطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ : اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے" انتہی
"الإقناع في مسائل الإجماع" ( مسئلہ نمبر:  351)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا جرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرنا جائز ہے؟
تو انہوں نے کہا:
"جرابوں پر مسح کرنا  اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو، چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یا نہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/213)

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"اگر جرابیں بالکل باریک ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عام طور پر باریک جراب پہن کر چلنا ممکن نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان پر مسح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے" انتہی
"شرح عمدة الفقه" (1/251)

اسی طرح فتاوی دائمی کمیٹی (5/267) میں ہے کہ:
"جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ اس میں سے جلد نظر نہ آئے"  انتہی

اسی طرح ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"ہر اس چیز پر مسح کرنا جائز ہے جو پاؤں ڈھانپنے کیلیے استعمال ہو، چاہے وہ موزے ہوں یا موٹی جرابیں" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة " (4/101)

اسی کے مطابق شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا فتوی ہے:
"بھیڑ یا اونٹ کی اون، بالوں اور سوت وغیرہ سے بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ موٹی ہوں اور جس قدر پاؤں کو دھونا لازمی ہے اتنے حصے کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ دیگر شرائط بھی پوری ہوں" انتہی
"فتاوى و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم" (2/66)

نیز ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
"اگر جراب اتنی باریک ہو کہ جلد نظر آئے ۔۔۔ تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے" انتہی
"فتاوى و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم" (2/68)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ: جرابیں موٹی اور پورے قدم کو ڈھانپ دیں، چنانچہ اگر جرابیں شفاف ہوں  تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس صورت میں پاؤں ننگا ہونے کے حکم میں ہوگا" انتہی
" فتاوى الشیخ ابن باز" (10/110)

کچھ علمائے کرام نے جرابوں پر مسح کو مطلقاً جائز قرار دیا ہے۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے [شافعی] فقہائے کرام نے عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے جرابوں پر مسح کرنے کا جواز نقل کیا ہے چاہے جرابیں باریک ہی کیوں نہ ہوں، نیز یہی بات ابو یوسف، محمد، اسحاق، اور داود سے بھی انہوں نے نقل کی ہے" انتہی
"المجموع شرح المهذب" (1/500)

ہر حالت میں جرابوں پر مسح کے جواز کے موقف کو شیخ البانی اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ راجح قرار دیتے ہیں۔

لیکن جو موقف پہلے گزرا ہے وہ اکثر علمائے کرام کا موقف ہے اور وہی راجح ہے؛ کیونکہ جرابوں پر مسح کرنے کا جواز اس وقت پیدا ہوا جب انہیں موزوں پر قیاس کیا گیا ، لیکن بالکل باریک جرابوں کو موزوں پر قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ شفاف جرابیں موزوں جیسی نہیں ہوتیں۔

نیز جن جرابوں پر صحابہ کرام مسح کیا کرتے تھے وہ بھی موٹی ہوا کرتی تھیں؛ کیونکہ شفاف جرابیں تو اب آئیں ہیں۔

امام احمد کہتے ہیں:
"جرابوں پر مسح اسی وقت درست ہوگا جب جرابیں موٹی ہوں۔۔۔ کیونکہ صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہی اس لیے تھا کہ وہ جرابیں ان کے ہاں موزوں کے قائم مقام تھیں، اس طرح کہ انسان وہ جرابیں پہن کر با آسانی چل پھر سکتا تھا" انتہی
"المغنی" از: ابن قدامہ (1/216)

اگر یہ کہا جائے کہ علمائے کرام نے جرابوں کے بارے میں یہ شرائط کیوں عائد کی ہیں؟

تو اس کے جواب کیلیے مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآنی آیت کی روشنی میں پاؤں کو دھونا ہی اصل ہے، اور اس اصل سے منتقل ہونے کیلیے ایسی صحیح احادیث کا ہونا لازمی ہے جن کے صحیح ہونے سے متعلق سب علمائے کرام کا اتفاق ہو، جیسے کہ موزوں پر مسح کرنے کی احادیث ہیں، چنانچہ ان احادیث کی وجہ سے پاؤں دھونے کی بجائے موزوں پر مسح کرنے پر اکتفا کرنا بلا اختلاف جائز ہو گیا۔

لیکن جرابوں پر مسح کرنے کی احادیث ماہرین علم حدیث کے ہاں صحیح نہیں ہیں، تو پاؤں کو دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح کو مطلقاً جائز کیسے کہا جا سکتا ہے؟

اس لیے علمائے کرام نے جرابوں پر مسح کرنے کیلیے یہ شرائط عائد کی ہیں تا کہ جرابوں اور موزوں میں یکسانیت قائم رہے اور ان جرابوں کو موزوں کی احادیث کے ضمن میں شامل کیا جا سکے۔۔۔

چنانچہ اگر جرابیں موٹی ہیں اور ڈھیلی  نہیں ہیں بلکہ بذات خود پاؤں کے سات چمٹی رہتی ہیں انہیں باندھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، نیز ان میں آسانی سے چلنا بھی ممکن ہے تو بلا شک و شبہ ایسی جرابوں اور موزوں میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں ہے؛ کیونکہ یہ موزوں کے حکم میں ہیں، اور اگر جرابیں بالکل باریک ہوں کہ قدموں پر چمٹا کر رکھنے کیلیے انہیں باندھنا بھی پڑے  اور ان میں چلنا بھی ممکن نہ ہو تو پھر یہ جرابیں موزوں کے حکم میں نہیں ہونگی، کیونکہ اس صورت میں جرابوں اور موزوں میں واضح فرق ہے۔

آپ غور کریں کہ: اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزے جوتوں کا کام دیتے ہیں، ان میں انسان آسانی سے چل پھر سکتا ہے، جہاں مرضی جا سکتا ہے، اس لیے موزے جس شخص نے پہن رکھے ہوں اسے چلنے کیلیے موزے اتارنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اس لیے وہ موزوں کو ایک دن اور رات تک پہنے رکھتا ہے اتارتا نہیں ہے، بلکہ کئی دن اور رات تک بھی پہنے رکھتا ہے، تو ایسی صورت میں اس کیلیے ہر وضو کے وقت انہیں اتارنا مشقت طلب ہو گا۔

لیکن باریک جرابیں جس شخص نے پہنی ہوئی ہوں تو وہ چلنے سے پہلے انہیں دن میں کئی بار اتارے گا ، تو ایسی صورت میں اس کیلیے وضو کرتے ہوئے جرابوں کو اتارنا مشقت طلب نہیں ہو گا۔

لہذا اس فرق کا تقاضا ہے کہ موزے پہننے والے کیلیے ان پر مسح کی اجازت دی جائے  لیکن باریک جرابیں پہننے والے کو مسح کی اجازت نہ دی جائے، نیز باریک جرابوں کو موزوں پر مسح کیلیے قیاس کرنا بھی قیاس مع الفارق ہوگا" انتہی
"تحفۃ الأحوذی" (1/ 285)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:

اکثر علمائے کرام باریک اور شفاف جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، نیز اگر جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے تو موٹی جرابوں کے بارے میں ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب