منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

صالحين كےمقام ومرتبہ كا واسطہ دے كراللہ تعالى سےسوال كرنے كا حكم

سوال

كيا فوت شدہ صالح اور نيك لوگوں كےمرتبہ اورمقام كي بنا پر زندہ لوگوں پر اللہ تعالى كرم كرتا ہے كہ جب ہم اللہ تعالى سے كسي صالح اور نيك شخص كي نيكي اور اصلاح اور اس كي عبادت كےواسطےسے كسي مصيبت سے چھٹكارا طلب كريں، حالانكہ ہميں علم ہے كہ فائدہ اللہ تعالي كي جانب سے ہي ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس ميں كوئي شك نہيں كہ دعاء شرعي عبادات ميں سےايك عظيم عبادت ہے جس كےساتھ اللہ تعالي كا قرب حاصل كيا جاتا ہے، اور اس ميں بھي كوئي شك نہيں كہ يہ كسي بھي بندے كےلئےجائزنہيں كہ وہ اللہ تعالي كي عبادت اس طريقہ پر كرے جو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زبان سے مشروع نہيں كيونكہ حديث ميں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا بيان كرتي ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" جس نےبھي ہمارے دين ميں كوئي ايسا كام ايجاد كيا جواس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"

صحيح بخاري حديث نمبر ( 2499 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3242 ) اور مسلم كي ايك روايت كےالفاظ ہيں:

" جس نےبھي ايسا كوئي عمل كيا جس پرہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے" صحيح مسلم حديث نمبر ( 3243 ) .

اس سےيہ معلوم ہوا كہ اللہ تعالي كواس كا وسيلہ يا واسطہ دينا جو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سےثابت نہيں نہ تو قولي اورفعلي طور پر اور نہ ہي ان صحابہ كرام نےكيا جونيكي اورخير ميں ہم سےزيادہ سبقت لےجانےوالےتھے ايسا كام كرنا بدعت اور برائي ہے، وہ بندہ جو اللہ تعالي سےمحبت كرتا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي اتباع وپيروي كرتا ہے وہ اس سےاجتناب كرے اورايسےطريقہ سےعبادت نہ كرے جو شرعا ثابت نہيں.

لھذا جب ہم سائل نےجو كچھ ذكر كيا ہے اسےديكھتےہيں، كہ صالح اور نيك لوگوں كےمقام ومرتبہ اوران كي عبادت اورمقام كا اللہ تعالي كو وسيلہ دينا، توہم اس كام كو ايك نئي ايجاد پاتےہيں جو نبي صلى اللہ عليہ وسلم سےثابت نہيں، اور نہ ہي صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم سےثابت ہے كہ انہوں نے كسي ايك دن بھي اللہ تعالي كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےمقام ومرتبہ اوران كي شان كا وسيلہ ديا ہو نہ تو نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زندگي ميں نہ ہي وفات كےبعد، بلكہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي زندگي ميں وہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي دعا سےوسيلہ پكڑتےكہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كےلئےاللہ تعالي سےدعا فرمايا كرتےتھے، اورجب نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوگئے توانہوں نے زندہ اور صالح افراد كي دعا كا وسيلہ بنايا اور نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي شان اور مرتبہ كےوسيلہ كو ترك كرديا، جو كہ واضح طور پر اس بات كي دليل ہے كہ اگر نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كي ذات يا ان كےمقام ومرتبہ كا وسيلہ خيرو بھلائي اور مشروع ہوتا تو صحابہ كرام ہم سےسبقت لے جاتےہوئےايسا ضرور كرتے.

اور كون ايسا شخص ہے جويہ خيال كرےكہ وہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ سےخيروبھلائي ميں زيادہ حرص ركھتا ہے؟ ديكھيں عمربن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےمقام مرتبہ اوران كي شان كا وسيلہ دينے سے اعراض كررہے ہيں بلكہ انہوں نے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےچچا كي دعا كا وسيلہ بنايا، اور صحابہ كرام بغير كسي مخالف اور انكار كے اس كي گواہي ديتےہيں جيسا كہ صحيح بخاري ميں ہے:

انس بن مالك رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتےہيں كہ :

" جب قحط پڑتا تو عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ عباس بن عبدالمطلب رضي اللہ تعالي عنہ سےدعا كرواتے اور يہ كہتے: اے اللہ ہم تيري طرف اپنےنبي كا وسيلہ بنايا كرتےتھےتو ہميں تو بارش عطا كرتا تھا، اور اب ہم اپنےنبي كےچچا كا وسيلہ بناتےہيں توہميں بارش عطا فرما، وہ كہتےہيں كہ بارش ہوجايا كرتي تھي. صحيح بخاري حديث نمبر ( 954 ).

نبي صلى اللہ عليہ وسلم يا عباس رضي اللہ تعالي عنہ كو وسيلہ بنانے كا معني يہ ہے كہ ان كي دعا كا وسيلہ بناتےتھےجيسا كہ حديث كےبعض طرق ميں اس كوبيان بھي كيا گيا ہے:

انس رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ جب نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےدور ميں بارش نہ ہوتي اور قحط پڑجاتا تو صحابہ كرام ان سے بارش دعا طلب كرتےتوانہيں بارش مل جاتي، اور جب عمر رضي اللہ تعالي عنہ كي امارت ميں ايسا ہوا" اس كےبعد باقي حديث ذكر كي، اسےاسماعيلي نے صحيح پر اپني مستخرج ميں بيان كيا ہے.

اور مصنف عبدالرزاق ميں ابن عباس رضي اللہ تعالي عنہما كي حديث ميں ہےكہ: عمر رضي اللہ رضي اللہ تعالي نےعيدگاہ ميں بارش كي دعا كي اور عباس رضي اللہ تعالي عنہ كو كہنےلگے: اٹھو اور بارش كي دعا كرو، تو عباس رضي اللہ تعالى عنہ كھڑے ہوئے" پھر باقي حديث ذكر كي،اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح الباري ميں نقل كيا اورخاموشي اختيار كي ہے.

تواس سےواضح ہوا كہ عمر رضي اللہ تعالي عنہ نےجو توسل اور وسيلہ كا قصد كيا تھا تو ايك نيك اور صالح شخص كي دعا تھي جو كہ صحيح اور مشروع ہے، اس كےبہت سےدلائل پائےجاتےہيں اور صحابہ كرام كےحالات سے يہ معلوم ہے كہ جب وہ قحط سالي كا شكار ہوتےاور بارش نہ ہوتي تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دعا كرنےكا كہتےتو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےدعا كرنےسےبارش ہوجاتي اس ميں بہت سي احاديث مشہورہيں.

مستقل فتوي كميٹي كےفتاوي ميں ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام اور مرتبہ يا كسي صحابي يا ان كےعلاوہ كسي اور كا شرف و مقام يا اس كي زندگي كےواسطےاوروسيلہ سےدعا كرنا جائزنہيں، اللہ تعالى نےاسےمشروع نہيں كيا،اس لئےكہ عبادات توقيفي ہيں، بلكہ اللہ تعالى نے اپنےبندوں كےلئے اپنےناموں اور صفات اوراس كي توحيد اور اس پرايمان اور اعمال صالحہ كا وسيلہ مشروع اور جائز كيا ہے، نہ كہ كسي كي زندگي اوراس كےمقام ومرتبہ كاوسيلہ، لھذا مكلفين پر واجب ہے كہ وہ اس پر اكتفا كريں جواللہ تعالى نےان كےلئےمشروع كيا ہے، تواس سےيہ پتہ چلتا ہے كہ كسي كي زندگي يا مقام مرتبہ وغيرہ كاوسيلہ دين ميں نئي ايجاد كردہ اور بدعت ہے. اھ

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1/ 153)

اورشيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں:

" كسى ايك كےلئے بھى يہ جائزنہيں كہ وہ اپنے سے پہلے سلف صالحين كا اللہ تعالى كوواسطہ دے، كيونكہ ان كا نيك اورصالح ہونا اس كےعمل ميں سےنہيں كہ اسےاس كا بدلہ ديا جائے، مثلا غار والے تين اشخاص نے اپنے سے پہلے نيك وصالح لوگوں كا وسيلہ نہيں ديا بلكہ انہوں نےاللہ تعالى كےسامنے اپنے اعمال صالحہ كو وسيلہ بنايا تھا اھ.

اللہ تعالى سےہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں موت تك اپنےدين اور شريعت پر ثابت قدم ركھےآمين.

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: التوسل وانواعہ و احكامہ تاليف: الشيخ البانى رحمہ اللہ تعالى صفحہ ( 55 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 153 ) اور التوصل الى حقيقۃ التوسل تاليف الشيخ محمد نسيب الرفاعى ( 18 ) .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب