الحمد للہ.
اول :
جب آپ کسی شخص یا کہيں سے بھی پچاس روپے پانچ برس کے لیے قرض حاصل کریں تواس کی دائيگي بھی اسی کرنسی میں کرنا واجب ہوگي ، جب یہ کرنسی موجود ہواورچاہے اس کی قیمت بھی کم ہوجائے ۔
سوال نمبر ( 12541 ) کے جواب میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ کرنسی کی قیمت میں کمی کے باعث قرض میں زیادہ ادا کرنا حرام ہے ، اوراسے سود شمار کیا جائے گا ، جمہورفقھاء کرام کا مسلک یہی ہے ۔
دوم :
جوکوئي شخص بھی کسی ایک کرنسی میں قرض حاصل کرے اوراس کے علاوہ کسی اورکرنسی میں قرض کی ادائيگي پر اتفاق کیا جائے تووہ سود میں پڑے گا ، اس لیے کہ حقیقتا توموجودہ کرنسی کسی اورکرنسی میں ادھار فروخت کی جارہی ہے ، اوریہ حرام اور سود کی ایک قسم میں شامل ہے جسے رباالنسیئۃ کہا جاتا ہے ۔
لیکن قرض لینے والے لیےجائز ہے کہ وہ قرض دینے والے سے اتفاق کرلے کہ وہ ادائيگي کسی اورکرنسی میں کرے گا ۔
لھذا سابقہ مثال میں یہ ہوگا کہ جب پانچ برس پورے ہوجائيں توآپ کے ذمہ پچاس روپے ادا کرنے واجب ہیں ، اورآپ کےلیے جائز ہے کہ آپ قرض دینے والے سے اس پراتفاق کرلیں کہ آپ ادائيگي کے وقت اس کے بدلے میں جتنی دوسری کرنسی مثلاڈالر یا کوئي اورکرنسی ہوگي وہ ادا کرونگا ، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ جس دن قرض کی ادائيگي ہوگی ریٹ اوربھاؤ بھی اسی دن کا ہونا ضروری ہے ۔
سوم :
لیکن قرض لینا اوراس پر بڑھوتی کا فائدہ ادا کرنا صحیح نہيں بلکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ قرض میں بڑھوتی کے مقابلہ میں زيادہ ادا کرنا حرام ہے اوریہ سود میں شامل ہوتا ہے ، اس لیے آپ کے لیے یہ قرض حاصل کرنا جائز نہيں ہے ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور اورسود کھلانے والے اوراس کے لکھنے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائي ہے اورانہيں گناہ میں برابر قرار دیا ہے ۔ دیکھیں صحیح مسلم حديث نمبر ( 1598 ) ۔
حدیث میں آکل کا معنی سود خور ، اورمؤکلہ سود دینے والا ہے ۔
واللہ اعلم .