الحمد للہ.
الحمدللہمرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی اورسسر کی بیوی جبکہ وہ بیوی کی ماں ( ساس ) نہ ہو شادی کرلے ، اوراس میں کوئي حرج نہيں کہ وہ اس عورت ( سسر کی بیوی ) سے شادی کرلے اگرچہ اس کے خاوند کی بیٹی بھی اس کے پاس ہے ، اس لیے کہ ان دونوں بیوی کے مابین کوئي تعلق ہی نہيں ، یعنی اس کی پہلی بیوی اوراس کے والد کی بیوی کے مابین ۔
بلکہ جو حرام ہے وہ یہ کہ دوبہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرلیا جائے ، یا پھر بیوی اوراس کی خالہ یا پھوپھی کوجمع کرنا حرام ہے ، آپ اس کی تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 22302 ) کے جواب کا مراجعہ کریں ۔
اوراس کے علاوہ باقی سب حلال ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نکاح میں حرام عورتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ فرمایا :
اوران عورتوں کے علاوہ اورعورتیں تمہارے لیے حلال کی گئيں ہیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان نکاح کرنا چاہو ۔۔ النساء ( 24 ) ۔
اورماں اور بیٹی کے مسئلہ میں تفصیل ہے :
اگرتوبیٹی بیوی ہو تواس کی ماں ( یعنی ساس ) صرف عقد نکاح کے ساتھ ہی محرمات ابديہ میں شامل ہوگی ۔
اوراگر بیوی ماں ہے تو پھر اس میں تفصیل ہے :
- اگرتو خاوند نے اس سے دخول کرلیا ہے ( یعنی ہم بستری ) تواس صورت میں اس کی بیٹی محرمات ابديہ میں شامل ہوگی ۔
- اوراگر اس سے دخول نہیں کیا تو پھر ( بیٹی ) اس پر اس وقت تک حرام ہے جب تک اس کی ماں کو نہيں چھوڑتا ۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورتمہاری ساس ، اورتمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں کیا توپھر تم پر کوئي گناہ نہیں النساء ( 23 ) ۔
دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 134 ) ۔
واللہ اعلم .