منگل 22 ذو القعدہ 1446 - 20 مئی 2025
اردو

جنابت اور حیض سے پاکی کے مسائل: دونوں کے لیے ایک غسل پر اکتفا کرنا

243792

تاریخ اشاعت : 21-05-2025

مشاہدات : 42

سوال

میں غیر شادی شدہ ہوں۔ حیض کے دوران مجھ پر کئی مرتبہ غسلِ جنابت واجب ہوا۔ میں نے ایک فتویٰ سنا کہ حیض کی حالت میں جنابت کا غسل کیا جا سکتا ہے، مگر اس سے صرف جنابت ہی رفع ہو گی، حیض نہیں۔ چنانچہ میں نے حیض ختم ہونے سے پہلے جنابت کے لیے غسل کر لیا۔ پھر جب حیض ختم ہوا تو میں نے دوبارہ غسل کیا، اس نیت سے کہ حیض اور جنابت دونوں سے پاک ہو جاؤں۔ بعد میں شک کی وجہ سے ایک تیسرا غسل بھی کیا، جس میں نیت صرف جنابت رفع کرنے کی تھی، کیونکہ وسوسے کی وجہ سے میں اپنی طہارت کے بارے میں غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہو گئی تھی۔ پھر میں نے ایک خواب دیکھا جس میں میں تمام نمازیں مکمل طور پر ادا کر رہی تھی، لیکن کچھ لوگ میری نماز پر اعتراض کر رہے تھے، جس سے میرے دل میں خوف پیدا ہو گیا۔ اس لیے میں آپ سے فتویٰ طلب کر رہی ہوں کہ:

کیا میرا غسل درست تھا اور کیا میں واقعی پاک ہوں؟

کیا کئی مرتبہ منی خارج ہونے کے بعد ایک ہی غسل کافی ہوتا ہے؟

کیا حیض اور جنابت کا غسل ایک ساتھ کرنے کا فتوی صحیح ہے؟

غسل میں کیا یہ ضروری ہے کہ وضو کے بعد سر کو تین بار دھویا جائے اور پہلے دائیں پھر بائیں جانب تین ، تین بار پانی بہایا جائے؟ یا پورے جسم پر پانی بہا لینا کافی ہے اور تین بار دھونا محض سنت ہے؟ اور مخصوص تعداد مشروط نہیں ہے۔

الحمد للہ.

اول: وسوسے کا علاج

آپ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ طہارت کے مسائل میں وسوسے کا شکار ہیں، اور یہ وسوسے بذات خود ایک بڑی بیماری ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اس سے نجات عطا فرمائے۔ شیطانی وسوسے سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیطانی خیالات کو نظر انداز کریں، ان پر غور نہ کریں اور یقین رکھیں کہ اگر آپ نے شریعت کے مطابق غسل یا وضو کیا ہے تو وہ درست اور کافی ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے (62839) نمبر سوال کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:حیض اور جنابت کے لیے ایک غسل  پر اکتفا

اگر کسی عورت کو حیض کے دوران جنابت لاحق ہو جائے تو اس کے لیے شرعاً جائز ہے کہ وہ حیض کی حالت میں جنابت کا غسل کرے۔ تاہم، اس غسل سے صرف جنابت رفع ہوگی، حیض سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔ اس مسئلے کی تفصیل (91793) نمبر فتویٰ میں موجود ہے۔
چنانچہ جب حیض ختم ہو جائے تو ایک ہی غسل کرنا کافی ہو گا، جس میں نیت حیض سے پاکی حاصل کرنے کی ہو گی۔

سوم: متعدد بار منی خارج ہونے پر ایک غسل کافی ہو گا

اگر کسی شخص پر ایک سے زیادہ مرتبہ غسلِ جنابت واجب ہو جائے، تو ایک غسل تمام سابقہ جنابت کو رفع کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ اس کی وضاحت (81772) نمبر فتویٰ میں کی گئی ہے۔

چہارم:رفعِ حیض اور جنابت کے لیے ایک غسل کی نیت

اگر کسی عورت پر حیض اور جنابت دونوں لازم ہو جائیں تو ایک غسل ان دونوں سے پاکی کے لیے کافی ہوگا، چاہے وہ دونوں کی نیت کرے یا ان میں سے صرف کسی ایک کی نیت کرے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگر دو ایسے اسباب جمع ہو جائیں جن کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے، جیسے حیض اور جنابت، یا مباشرت اور انزال، اور کوئی شخص ان دونوں کو رفع کرنے کی نیت سے غسل کر لے، تو یہ غسل دونوں کے لیے کافی ہو گا، یہ موقف اکثر اہل علم کا ہے ان میں عطاء، ابو زناد، ربیعہ، مالک، شافعی، اسحاق اور اہل رائے شامل ہیں۔" ختم شد
المغنی: (1/162)

اسی طرح "الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع" (1/68) میں ہے کہ:
"اگر کسی عورت پر حیض اور جنابت دونوں واجب ہوں، تو حتمی اور قطعی طور پر کسی ایک کی نیت کرنا بھی کافی ہو گا۔"

پنجم: غسل جنابت کے لیے واجب طریقہ

غسلِ جنابت میں فرض یہ ہے کہ پورے جسم پر پانی بہایا جائے اور جسم کا کوئی بھی حصہ خشک نہ رہے۔
اگر پانی جسم کے ہر حصے تک پہنچا دیا جائے، تو غسل مکمل ہو گیا، اور مزید کوئی خاص ترتیب یا مخصوص تعداد میں پانی ڈالنا واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، اس بارے میں مزید وضاحت (83172) نمبر فتویٰ میں موجود ہے۔

واللہ اعلم۔

ماخذ: الاسلام سوال و جواب