الحمد للہ.
اول: وسوسے کا علاج
آپ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ طہارت کے مسائل میں وسوسے کا شکار ہیں، اور یہ وسوسے بذات خود ایک بڑی بیماری ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اس سے نجات عطا فرمائے۔ شیطانی وسوسے سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیطانی خیالات کو نظر انداز کریں، ان پر غور نہ کریں اور یقین رکھیں کہ اگر آپ نے شریعت کے مطابق غسل یا وضو کیا ہے تو وہ درست اور کافی ہے۔ اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے (62839) نمبر سوال کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:حیض اور جنابت کے لیے ایک غسل پر اکتفا
اگر کسی عورت کو حیض کے دوران جنابت لاحق ہو جائے تو اس کے لیے شرعاً جائز ہے کہ وہ حیض کی حالت میں جنابت کا غسل کرے۔ تاہم، اس غسل سے صرف جنابت رفع ہوگی، حیض سے پاکی حاصل نہیں ہوگی۔ اس مسئلے کی تفصیل (91793) نمبر فتویٰ میں موجود ہے۔
چنانچہ جب حیض ختم ہو جائے تو ایک ہی غسل کرنا کافی ہو گا، جس میں نیت حیض سے پاکی حاصل کرنے کی ہو گی۔
سوم: متعدد بار منی خارج ہونے پر ایک غسل کافی ہو گا
اگر کسی شخص پر ایک سے زیادہ مرتبہ غسلِ جنابت واجب ہو جائے، تو ایک غسل تمام سابقہ جنابت کو رفع کرنے کے لیے کافی ہو گا۔ اس کی وضاحت (81772) نمبر فتویٰ میں کی گئی ہے۔
چہارم:رفعِ حیض اور جنابت کے لیے ایک غسل کی نیت
اگر کسی عورت پر حیض اور جنابت دونوں لازم ہو جائیں تو ایک غسل ان دونوں سے پاکی کے لیے کافی ہوگا، چاہے وہ دونوں کی نیت کرے یا ان میں سے صرف کسی ایک کی نیت کرے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگر دو ایسے اسباب جمع ہو جائیں جن کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے، جیسے حیض اور جنابت، یا مباشرت اور انزال، اور کوئی شخص ان دونوں کو رفع کرنے کی نیت سے غسل کر لے، تو یہ غسل دونوں کے لیے کافی ہو گا، یہ موقف اکثر اہل علم کا ہے ان میں عطاء، ابو زناد، ربیعہ، مالک، شافعی، اسحاق اور اہل رائے شامل ہیں۔" ختم شد
المغنی: (1/162)
اسی طرح "الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع" (1/68) میں ہے کہ:
"اگر کسی عورت پر حیض اور جنابت دونوں واجب ہوں، تو حتمی اور قطعی طور پر کسی ایک کی نیت کرنا بھی کافی ہو گا۔"
پنجم: غسل جنابت کے لیے واجب طریقہ
غسلِ جنابت میں فرض یہ ہے کہ پورے جسم پر پانی بہایا جائے اور جسم کا کوئی بھی حصہ خشک نہ رہے۔
اگر پانی جسم کے ہر حصے تک پہنچا دیا جائے، تو غسل مکمل ہو گیا، اور مزید کوئی خاص ترتیب یا مخصوص تعداد میں پانی ڈالنا واجب نہیں، بلکہ سنت ہے، اس بارے میں مزید وضاحت (83172) نمبر فتویٰ میں موجود ہے۔
واللہ اعلم۔