ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

اللہ تعالی کے اسما و صفات پر ایمان لانے کا صحیح طریقہ کار

سوال

اللہ تعالی کے اسما و صفات پر ایمان لانے کا میرا منہج یہ ہے کہ: میں یہ مانتا ہوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی جو کچھ بھی اپنے بارے میں ذکر کیا ہے یہ محض اللہ تعالی کی ذات کے متعلق ذہنی تصور پیدا کرنے کے لیے ہے، وگرنہ اللہ تعالی کی ذات کا مکمل ادراک ہم نہیں کر سکتے ، اور اس حوالے سے مجھے فرقہ وارانہ بحثوں اور جماعتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے!

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے جو اسما اور صفات اپنے لیے خود ثابت کیے ہیں یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا اثبات کیا ہے ان پر بغیر کسی کیفیت، تمثیل، تحریف اور تعطیل کے ایمان لانا واجب ہے۔

اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم یقین اور ایمان رکھیں کہ اللہ تعالی سننے والا، دیکھنے والا، جاننے والا اور حکمت والا ہے، اللہ تعالی کی صفات میں سماعت، بصارت، علم اور حکمت شامل ہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی صفات میں آسمان پر مستوی ہونا، آسمان دنیا تک اللہ تعالی کا آنا، خوش ہونا، مسکرانا، غصہ ہونا اور رضامندی کا اظہار کرنا بھی شامل ہیں، نیز یہ بھی ماننا کہ اللہ تعالی کا چہرہ اور دو ہاتھ بھی ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنے بارے میں یہ باتیں بتلائیں ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بتلائی ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی کے اسما و صفات کے بارے میں کسی بھی غلطی سے معصوم ہیں۔

اللہ تعالی کے اسما و صفات پر ایمان اللہ تعالی پر ایمان کا حصہ ہے، اور اللہ تعالی پر ایمان ؛ ایمان کا رکن اعظم اور بنیاد ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ: اللہ تعالی نے اپنے آپ کو قرآن عزیز میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس جس صفت سے متصف قرار دیا ہے ان پر بغیر کسی تحریف، تعطیل ، تمثیل اور کیفیت بیان کیے ایمان لائیں۔
بلکہ مومنوں کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ: اللہ تعالی کی کوئی نظیر نہیں ہے اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کسی بھی ایسی صفت کی نفی نہیں کرتے جو اللہ تعالی نے اپنے لیے ثابت کی ہے، نہ ہی ان ثابت شدہ صفات کے الفاظ میں تحریف کرتے ہیں، نہ ہی اللہ تعالی کے اسما و صفات کے متعلق الحاد کا شکار ہوتے ہیں، اللہ تعالی کی صفات کے لیے مخلوق کی صفات کی مثالیں اور کیفیت ذکر نہیں کرتے؛ کیونکہ ذات باری تعالی ایسی ذات ہے جس کا کوئی ہم نام نہیں، کوئی اس کا ہم سر نہیں، کوئی اس کا شریک نہیں، اس لیے اللہ تعالی کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ذات باری تعالی کو اپنے اور دوسروں کے بارے میں سب سے زیادہ علم ہے، اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں ہے، اللہ تعالی کی بات سب سے بہترین ہے۔ اللہ تعالی کے بعد اللہ کے صادق و مصدق رسولوں کو اللہ تعالی کے بارے میں زیادہ علم ہے۔ جبکہ اللہ اور اس کے رسول کے بعد عام لوگ اللہ تعالی کے بارے میں جب بات کرتے ہیں تو ان کی باتیں لاعلمی کی بنیاد پر ہوتی ہیں، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ * وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ * وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
 ترجمہ: تیرا رب جو کہ رب العزت ہے وہ لوگوں کی باتوں سے بالکل مبرا ہے ٭ سلامتی ہو تمام رسولوں پر ٭ اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ [الصافات: 180 - 182]
تو ان آیات میں اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ان لوگوں کی باتوں سے مبرّا قرار دیا ہے جو رسولوں کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ پھر رسولوں پر سلامتی نازل فرمائی کیونکہ رسولوں کی اللہ تعالی کے بارے میں بتلائی گئی باتیں بالکل ٹھیک تھیں ۔
اللہ تعالی نے اپنے اوصاف اور اسما ذکر کرتے ہوئے نفی اور اثبات دونوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات سے بالکل نہیں ہٹتے؛ کیونکہ یہی تو صراط مستقیم ہے، یہ انبیائے کرام، صدیقین، شہدا اور صالحین جیسے ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالی نے انعامات کیے ہیں۔" ختم شد
شرح عقیدہ واسطیہ، از الشیخ خلیل ہراس: ص65

دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کے طریقے پر چلنے سے ہی نجات ملے گی، ان کے علاوہ جتنے بھی ہوس پرست یا بدعت میں ملوث لوگ ہیں ان سے دور رہنا لازم ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے!) صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون سا فرقہ ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں۔) یہ حدیث امام ترمذی: (2641) نے عبد اللہ بن عمرو سے بیان کی ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے، اسی طرح ابن العربی نے " أحكام القرآن " ( 3 / 432 ) میں نیز علامہ عراقی نے اسے " تخريج الإحياء " ( 3 / 284) میں اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

چنانچہ اگر آپ نجات چاہتے ہیں تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے راستے پر چلیں، یہی وہ راستہ ہے جس پر سلف صالحین چلے ہیں، سلف صالحین تمام اسما و صفات پر ایمان رکھتے ہیں، وہ ان میں کسی تاویل، تحریف، تشبیہ اور تکییف کے شکار نہیں ہوتے۔

آپ نے سوال میں کہا کہ: " یہ محض اللہ تعالی کی ذات کے متعلق ذہنی تصور پیدا کرنے کے لیے ہے، کیونکہ اللہ تعالی کی ذات کا مکمل ادراک ہم نہیں کر سکتے "
تو اگر اس جملے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ ہم ان صفات کی حقیقت اور کیفیت نہیں جانتے، اور ہمیں ان کا مکمل طور پر ادراک نہیں ہے تو آپ کی یہ بات صحیح ہے، اس لیے ہمیں علم ہے کہ اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ سننے سے مراد قوت سماعت ہے، اور دیکھنے سے مراد قوت بصارت ہے، لیکن اللہ تعالی کی قوت سماعت اور بصارت کی کیفیت اور حقیقت کو ہم نہیں جان سکتے، ہم اللہ تعالی کی صفات کا ہر اعتبار سے ادراک نہیں کر سکتے؛ کیونکہ اللہ تعالی ہر قسم کی آواز چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، کسی بھی زبان میں ہو اور کسی بھی لہجے میں ہو سب کو بیک وقت سنتا ہے۔ اسی طرح عالم علوی اور سفلی دونوں کی ہر چیز کو بیک وقت دیکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اللہ تعالی کے دیکھنے اور سننے کی کیفیت کو نہیں جانتے اور نہ ہی اس کا ہر جانب سے احاطہ کر سکتے ہیں۔

یہی موقف اللہ تعالی کی تمام صفات کے بارے میں ہے۔

تو معلوم یہ ہوا کہ ہم ایک اعتبار سے تو اللہ تعالی کی صفات کو جانتے ہیں، جبکہ دوسرے اعتبار سے ہم لا علم ہیں۔ یعنی اللہ تعالی کی صفات کے ثابت ہونے کے اعتبار سے انہیں جانتے ہیں، اس کا مفہوم بھی سمجھتے ہیں لیکن اس کی کیفیت اور حقیقت نہیں جانتے۔

نیز یہ بھی ہے کہ یہ معاملہ صرف اللہ تعالی کے اسما و صفات ہی میں نہیں ہے بلکہ ہر غیر مشاہداتی اور غیبی چیز کے بارے میں ہے، مثلاً: جنت کی نعمتیں وغیرہ کہ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ جنت میں شراب اور شہد ہوں گے، ہمیں ان کے مفہوم کا اس حد تک علم ہے جس حد تک ہم نے ان دونوں چیزوں کو دنیا میں دیکھا ہوا ہے، لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی یقینی طور پر کہتے ہیں کہ : جنت کی شراب اور شہد دنیاوی شراب اور شہد جیسے نہیں ہیں۔

علامہ واسطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی صفات ثابت بھی ہیں اور اجمالی طور پر معلوم بھی ہیں، لیکن ان کی کیفیت اور حدود کیا ہیں ؟ ہماری عقل اسے قاصر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی کی صفات کے حوالے سے مومن ایک اعتبار سے بینا ہے تو دوسرے اعتبار سے نابینا ہے۔ ان صفات کے ثبوت اور وجود پر ایمان رکھتا ہے، جبکہ ان کی کیفیت اور حد بندی سے لا علم ہے۔ اس طرح اللہ تعالی نے جو کچھ اپنے لیے ثابت قرار دیا ہے اس میں؛ اور اللہ تعالی کے اسما و صفات کے متعلق تحریف، تشبیہ اور توقف کے درمیان تطبیق حاصل ہو جاتی ہے۔ اور یہی وہ مرادِ الہی ہے جو اللہ تعالی ہم سے چاہتا ہے ؛ اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں اپنی صفات کھول کھول کر بیان کی ہیں، اور ہم ان پر ان کی حقیقت کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں، اور اللہ تعالی کے ساتھ کسی چیز کی تشبیہ قائم نہیں کرتے۔" ختم شد
ماخوذ از: " النصيحة في صفات الرب جل وعلا "ص41 – 42

اور اگر آپ کے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ:
اللہ تعالی کی صفات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انہیں محض تخیلات اور مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے تو یہ باطل موقف ہے۔ یہی موقف تو فلسفیوں کا ہے کہ اللہ تعالی کی صفات محض تخیلات ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، یہاں بس لوگوں کی اکثریت کا خیال رکھتے ہوئے ان صفات کو ذکر کیا گیا ہے تا کہ لوگ اللہ تعالی پر ایمان لا سکیں۔

علامہ سفارینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"راہِ راست سے منحرف ہونے والے تین قسم کے لوگ ہیں: اہل تخیلات، اہل تاویلات، اور اہل جہالت
اہل تخیلات: ان سے مراد فلسفی اور انہی کی راہ پر چلنے والے اہل کلام اور اہل تصوف ہیں، ان کا ماننا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ بھی ایمان اور آخرت کے حوالے سے ذکر کیا ہے یہ سب حقائق کو تخیلات میں بیان کیا گیا ہے ، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ اکثریت لوگوں کو ایمان لانے میں آسانی ہو، وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی حق کی حقیقت بیان نہیں کی، نہ ہی لوگوں کی رہنمائی کی ہے، نہ ہی حقائق واضح کیے ہیں۔!! ایسے کفر سے بڑا کوئی کفر نہیں ہے۔

اہل تاویلات: یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ: صفات الہیہ کے بارے میں وارد نصوص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ مقصد نہیں تھا کہ لوگ باطل پر ایمان لائیں، آپ کا مقصد کچھ معنوی چیزیں تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو بیان نہیں فرمائیں، نہ ہی لوگوں کی اس جانب رہنمائی کی۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ لوگ ان معنوی چیزوں پر غور و فکر کریں اور اپنی اسی فکر کی بدولت حق پہچانیں، اور ان نصوص کو ان کے مدلول سے پھیر دیں۔

اس نظریے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو امتحان اور مشقت میں ڈالنا چاہتے تھے، انہیں ذہنی اور عقلی طور پر کوفت میں ڈالنا چاہتے تھے کہ لوگ ان نصوص کو خود ہی ان کے مدلول اور مقتضی سے پھیر دیں، پھر حق کی معرفت کہیں اور سے حاصل کریں۔ یہ موقف متکلمین، جہمی، اور معتزلی نظریات رکھنے والے لوگوں کا ہے۔

اب اس موقف میں کتنی ڈھٹائی ہے کہ مقصد گمراہ کرنا ہے، خیر خواہی مقصد نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واضح فرامین سے تصادم ، یہ بات اللہ تعالی کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بتلائی ہوئی رحمت اور شفقت کی خوبی سے کس قدر تناقض رکھتی ہے! ظاہری طور پر انہوں نے عقیدہ توحید کی نصرت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، لیکن حقیقت میں انہوں نے نہ تو اسلام کی مدد کی ہے اور نہ ہی فلسفی لوگوں کا رد کیا ہے، بلکہ ملحدوں کے لیے ایک نیا دروازہ کھول دیا، پھر ملحدانہ نظریات کے لیے باطنی اور قرامطی فسادیوں کو کتاب و سنت پر مسلط کر دیا۔

اہل جہالت: یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آیات صفات کا مفہوم علم ہی نہیں تھا، نہ جبریل کو علم تھا، اسی طرح سابقین اولین افراد بھی ان کے معنی اور مفہوم سے نابلد تھے۔ ان کا یہی موقف صفات سے متعلقہ احادیث مبارکہ کے بارے میں بھی ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان سے ایسی باتیں کی ہیں جن کا -نعوذ باللہ- انہیں خود بھی مفہوم نہیں پتا تھا۔ یہ موقف بہت سے سنت اور سلف کی اتباع کے دعویداروں کا ہے، وہ بر ملا آیات صفات اور احادیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا معنی صرف اللہ ہی جانتا ہے، یہ لوگ اپنے اس موقف کے لیے اللہ تعالی کے فرمان : وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ترجمہ: اس کی حقیقت صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ کو دلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: اس آیت کو اس کے ظاہر پر سمجھو، اور ان کے ہاں ظاہر سے مراد یہ ہے کہ اس آیت کی تاویل صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا۔" ختم شد
" لوامع الأنوار البهية " (1/116)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (178915 ) اور (20760 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب