اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

روزوں کی فرضیت کا اسے علم نہیں تھا، تو کیا اب وہ روزے رکھے گی؟

سوال

سوال: پہلی بار جس وقت مجھ پر روزے فرض ہوئے تو میں نے لا علمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھ پر روزے فرض ہو چکے ہیں، تاہم مجھے رمضان کے آخری ہفتے میں اس کا ادراک ہو گیا تھا، اس کے بعد میں حیض سے فارغ ہوئی اور اس وقت رمضان کے باقی 4 دن رہ گئے تھے، مجھے ان دنوں میں الٹی کی شکایت تھی جس کی وجہ سے میں روزے نہیں رکھ سکی، تو کیا میں پورے ماہ کے روزے رکھوں یا فدیہ دے سکتی ہوں؟ لیکن مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنے دنوں کے روزے نہیں رکھے، اسی طرح میں نے اس سال نمازیں بھی نہیں پڑھیں جب مجھ پر روزے فرض ہوئے تھے، مجھے اسی سال نمازوں کی فرضیت کا بھی ادراک ہو گیا تھا، تو کیا میں ان نمازوں کی قضا بھی دوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان کے جتنے روزے آپ نے حیض یا لا علمی کی وجہ سے نہیں رکھے ان کی قضا آپ پر واجب ہے، اور اگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ کتنے روزے آپ نے نہیں رکھے تو اس کیلیے آپ یقینی اندازہ لگائیں اور غالب گمان کے مطابق اتنے روزے رکھیں کہ آپ کو اپنے ذمہ روزوں کی ادائیگی کا گمان ہو جائے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص روزے نہ رکھے اور یہ سمجھے کہ اس پر روزے فرض نہیں ہیں، مثال کے طور پر: اگر کوئی لڑکی جلد ہی حائضہ ہو جائے اور وہ یہ سمجھتی ہو کہ بلوغت  15 سال کی عمر مکمل ہونے پر ہی ہوتی ہے، تو ایسے میں اسے رمضان کے روزوں کی قضا دینا ہو گی؛ کیونکہ واجبات لاعلمی کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتے۔

اس مسئلے میں بعض ایسی لڑکیاں مبتلا ہو جاتی ہیں جنہیں جلد ماہواری شروع ہو جائے، یہ لڑکیاں اپنے اہل خانہ کو اپنے بالغ ہونے کا بتلاتے ہوئے شرماتی ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بالکل روزے نہیں رکھتیں اور بسا اوقات ماہواری کے دنوں میں بھی روزے رکھ رہی ہوتی ہیں۔

تو ہم روزے نہ رکھنے والی  پہلی لڑکی سے کہتے ہیں:  آپ نے بلوغت کے بعد جتنے مہینوں کے روزے نہیں رکھے ان کی قضادو۔

اور روزے رکھنے والی دوسری لڑکی سے کہتے ہیں: آپ نے ایام حیض میں جتنے روزے رکھے ہیں وہ دوبارہ رکھیں؛ کیونکہ حیض کی حالت میں روزے رکھنا صحیح نہیں " انتہی
ماخوذ از: "فتاوی نور علی الدرب از عثیمین" (11/2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

اور نمازوں کے متعلق یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کریں؛ نوافل سے فرائض کی کمی پوری کی جائے گی۔

چنانچہ جامع ترمذی: (413) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک سب سے پہلے جس  عمل کا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ  نماز ہے، چنانچہ اگر نمازیں صحیح ہوئیں تو وہ کامیاب و کامران ہو گا، اور اگر وہی صحیح نہ ہوئیں تو  وہ ناکام اور نامراد ہو گا، بندے کی فرض نمازوں میں کمی ہوئی تو اللہ عز وجل فرمائے گا: دیکھو میرے بندے کی نفل نمازیں ہیں؟ تو نوافل کے ذریعے فرائض کی کمی پوری کر دی جائے گی، پھر اس کے بعد اس کے دیگر تمام اعمال کے ساتھ بھی یہی تعامل کیا جائے گا)
اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: اسلام سوال و جواب