اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا مطلقہ عورت اپنا اور اپنے بچوں کا فطرانہ بچوں کے والد کو دے سکتی ہے؟

251162

تاریخ اشاعت : 22-06-2017

مشاہدات : 6788

سوال

مرد اور خاتون کا رشتہ طلاق کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے اور ان دونوں کی اولاد ہے، جو کہ اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں، یہ طلاق یافتہ خاتون اپنے طلاق دہندہ خاوند کو اپنی اور دونوں کے مشترکہ بچوں کی جانب سے فطرانہ دینا چاہتی ہے؛ کیونکہ وہ غریب آدمی ہے، تو کیا بچوں کا فطرانہ ان کے والد کو دے سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فطرانہ ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس عید کے دن اور رات  کی اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات  سے ایک صاع زائد اناج ہو۔

“دلیل الطالب” صفحہ: (83) میں ہے کہ:
“فطرانہ ہر اس مسلمان پر واجب ہے جس کے پاس  اپنی اور اہل خانہ کی عید کے دن کی غذائی ضروریات سے زیادہ  کھانے پینے کا سامان ہو۔۔۔ فطرانے کی ادائیگی  اپنی طرف سے اور جن مسلمانوں کا نان ونفقہ اس کے ذمہ ہے  ان سب کی جانب سے کریگا، اور اگر سب کی طرف سے ادا کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلے اپنی طرف سے پھر بیوی، غلام، ماں، باپ، بیٹا اور پھر قریب ترین رشتہ دار کی جانب سے ادا کرے گا” انتہی

دوم:

آدمی پر اپنے چھوٹے بچوں کا فطرانہ  ادا کرنا ضروری ہے اگر ان کا ذاتی کوئی مال نہ ہو تو، اور اگر ان کا ذاتی مال ہو تو پھر فطرانہ انہی کے مال سے ادا ہو گا، اسی طرح اگر بچے بالغ ہیں تو پھر فطرانہ انہیں خود دینا ہو گا۔

اس بارے میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر بچے کے پاس کوئی مال نہ ہو تو اسکا فطرانہ باپ کے ذمہ ہوگا، اور فطرانہ کی ذمہ داری باپ پر اجماع کی وجہ سے ہے، جسے ابن المنذر وغیرہ نے نقل کیا ہے، اور اگر بچے کا مال ہو تو فطرانہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے گا، اسی کے ابو حنیفہ، احمد، اسحاق، اور ابو ثور -رحمہم اللہ جمیعا -قائل ہیں” انتہی
“المجموع” (6/108)

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ (6/77) صفحہ پر کہتے ہیں:
“۔۔۔ اگر بچہ صاحب حیثیت ہو تو اسکا خرچہ و فطرانہ اسکے اپنے مال میں سے ہوگا، والد یا دادا پر نہیں ہوگا، اسی کے ابو حنیفہ، محمد، احمد، اور اسحاق -رحمہم اللہ جمیعا -قائل ہیں، اور ابن المنذر نے بعض علمائے کرام سے نقل کیا ہے کہ: کہ یہ باپ کے ذمہ ہیں، چنانچہ اگر باپ نے بچے کے مال میں سے ادائیگی کی تو اس نے گناہ کیا، اور وہ ضامن بھی ہوگا” انتہی

اور پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ اگر والد فوت ہو جائے یا اتنا غریب ہو کہ بچوں کے اخراجات برداشت نہ کر سکے  اور دوسری طرف ماں مالدار ہو تو ضرورت مند بچوں کا خرچہ ماں کے ذمہ ہو گا۔

اس بنا پر اگر ماں اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتی ہے تو پھر ان کا فطرانہ بھی نان و نفقہ دینے والا ادا کرے گا، لہذا اگر بچوں کا اپنا مال نہ ہو تو ماں بچوں کی جانب سے فطرانہ ادا کرے گی۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر:  (111811) اور (149347) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

مطلقہ خاتون  اپنا  اور اپنے بچوں کا فطرانہ طلاق دینے والے سابقہ خاوند کو دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ غریب ہو، یہاں پر یہ اشکال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ  وہ شخص اپنی سابقہ بیوی سے لیکر اپنے ہی بچوں پر خرچ کر دے گا اس طرح یہ مال دوبارہ  اس عورت کے  پاس آ جائے گا، یہ اشکال پیدا نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں:

پہلی: یہ مال عورت کا ہے بچوں کا نہیں ہے۔

دوسری: زکاۃ یا صدقہ دینے والے  کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا کہ اگر اس کا زکاۃ یا صدقہ کی مد میں دیا ہوا مال کسی اور مد میں اسی کے پاس واپس آ جائے، یہی وجہ ہے کہ اگر خاوند بیوی سے زکاۃ لیکر دوبارہ بیوی پر ہی خرچ کر دے تو بھی بیوی کیلیے خاوند کو اپنی زکاۃ دینا راجح موقف کے مطابق جائز ہے۔

اسی طرح کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ: ایک شخص نے اپنی زکاۃ اپنے ہی مقروض کو دی اور اس مقروض نے اپنی مرضی سے وہ رقم دوبارہ اسی کو قرضے کی مد میں واپس دے دی تو یہ جائز ہے۔

اس کی تائید ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ہوتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ: “نبی صلی اللہ علیہ وسلم  عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور پوچھا تمہارے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز ہے؟ تو عائشہ نے کہا: نہیں، البتہ نسیبہ [ام عطیہ کا نام] کو جو صدقے میں گوشت ملا تھا اس میں سے کچھ  ہماری طرف انہوں نے بھیجا ہے، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (صدقہ اپنی جگہ  پہنچ چکا ہے)” بخاری: (1494) مسلم: (1076)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ : اگر کوئی چیز کسی فقیر پر صدقہ کی جائے تو وہ دیگر اشیا کی طرح اس کی مکمل ملکیت میں چلا جاتا ہے، اب اس کیلیے جائز ہے کہ وہ کسی کو تحفہ دے، یا فروخت کرے یا کسی بھی قسم کا تصرف کرے جیسے کہ وہ اپنی دیگر ملکیتی چیزوں میں کرتا ہے۔

ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“اس واقعے سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ قرض خواہ مقروض  سے بعینہٖ وہی چیز قرضے کی مد میں واپس لے لے جو اس نے زکاۃ کی مد میں مقروض کو دی تھی، اسی طرح بیوی اپنے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے چاہے خاوند زکاۃ وصول کر کے دوبارہ اپنی اسی بیوی پر خرچ کر دے، مذکورہ دونوں صورتیں اس وقت جائز ہیں جب پیشگی شرط نہ رکھی گئی ہو” انتہی
“فتح الباری” (5/242)

مزید کیلیے دیکھیں:  “مجلة البحوث الإسلامية” (95/166)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب