اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قرآت ميں غلطياں اور نماز كے بعد بدعات كے مرتكب شخص كے پيچھے نماز ادا كرنا

26152

تاریخ اشاعت : 23-02-2010

مشاہدات : 8191

سوال

ہمارے كام والى جگہ ميں كسى اور ملك كا ايك شخص ہمارى امامت كرواتا ہے، تقريبا وہ ہر كلمہ ميں مد كرتا اور ايسے طريقہ سے تلاوت كرتا ہے جو گانے كے مشابہ ہے، وہ كہتا ہے كہ ميرے استاد نے مجھے ايسے ہى تعليم دى تھى، بعض اوقات تو ہم اس كے پيچھے نماز ادا ہى نہيں كر سكتے كيونكہ اس كى قرآت مختلف غلطيوں سے بلند ہوتى ہے.
كيا اس طريقہ سے قرآت كرنا جائز ہے كہ آواز بہت بلند ہو اور مختلف قسم كى غلطيوں پر مشتمل ہو ؟
اور جھرى نمازوں ميں تلاوت قرآن كا حكم كيا ہے؟
نماز كے بعد وہ شخص اپنى دونوں ہتھيلياں پيشانى ركھ كر سات بار ياحيى يا قيوم پڑھتا ہے، جب اس كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگا: علماء كہتے ہيں كہ ہر نماز كے بعد ايسا كرنے سے عقل روشن ہو جاتى ہے، اور صحيح مسلم ميں يہ موجود ہے، ليكن صحيح مسلم ميں ہميں نہيں ملا.
آپ سے گزارش ہے كہ ہمارے ان سوالات كا جواب ديں، اور ہميں بتائيں كہ اگر اس كا عمل صحيح نہيں تو ہميں كيا كرنا چاہيے، اور ہم اس كى تصحيح كيسے كر سكتے ہيں؟
ہم جو بھى كہيں وہ اسے نہيں مانتا اور كہتا ہے كہ وہ اسلامى تعليمات كے مطابق ہے، اور جو كچھ وہ كر رہا ہے وہ صحيح ہے، چنانچہ ہم كچھ بھى نہيں كر سكتے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اچھى آواز ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنا بہت اچھا اور افضل ہے، اور اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ بھى يہى ہے.

براء رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو عشاء كى نماز ميں والتين و الزيتون كى تلاوت كرتے ہوئے سنا ميں نے ان سے اچھى اور بہتر كسى كى آواز يا قرآت نہيں سنى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 735 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 464 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى قرآت كى تعريف فرمائى تھى، كيونكہ وہ بلند اور غمگين آواز كے مالك تھے.

ليكن آواز ميں حسن كى رغبت كا معنى يہ نہيں كہ كلام اپنى جگہ سے ہى دور نكل جائے، اسے فاسق اور گانے والوں كى آواز سے مشابہ نہيں ہونا چاہيے.

ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:

" اگر تم مجھے ديكھ ليتے جب ميں رات تمہارى قرآت سن رہا تھا، يقينا تجھے آل داود كى بہترين آواز سے نوازا گيا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4761 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 793 ) يہ الفاظ مسلم شريف كے ہيں.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قاضى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: قرآت اور ترتيل كے ساتھ آواز ميں حسن پيدا كرنے كے استحباب پر علماء كرام كا اجماع ہے.

ابو عبيد كہتے ہيں: اس بارہ ميں وارد شدہ احاديث حزن اور شوق دلانے پر محمول ہيں.

ان كا كہنا ہے: الحان يعنى سر لگا كر پڑھنے كو امام مالك اور جمہور علماء نے مكروہ جانا ہے، كيونكہ اس ميں قرآن كے مقصد خشوع و خضوع اور فہم سے خروج ہے.

اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى اور سلف كى ايك جماعت نے احاديث كى بنا پر اسے مباح قرار ديا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ رقت اور خشيت طارى ہونے كا سبب ہے، اور نفوس اسے سننے پر آمادہ ہوتے ہيں.

ميں كہتا ہوں: امام شافعى نے ايك جگہ پر كہا ہے: ميں الحان كے ساتھ يعنى سر لگا قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كو ناپسند كرتا ہوں.

اور ايك جگہ پر كہتے ہيں: ميں ناپسند نہيں كرتا، ہمارے اصحاب كا كہنا ہے: اس ميں كوئى اختلاف نہيں، بلكہ دونوں حالتوں ميں اختلاف ہے، جہاں انہوں نے مكروہ اور ناپسند كيا ہے وہاں مراد يہ ہے كہ جب لہك كر پڑھا جائے اور زيادتى يا كمى يا جہاں مد نہيں وہاں مد كرنے اور جہاں ادغام نہيں وہاں ادغام كرنے سے كلام اپنى جگہ سے نكل جائے تو يہ جائز نہيں.

اور جہاں انہوں نے مباج قرار ديا ہے وہاں مراد يہ ہے كہ اگر كلام كے موضوع ميں كوئى تبديلى نہ ہوتى ہو. واللہ اعلم

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 6 / 80 ).

دوم:

آپ كے امام كا نماز كے بعد پيشانى پر ہاتھ ركھ كر سات بار ياحي ياقيوم كہنے كى شريعت ميں كوئى دليل نہيں، اور نہ تو يہ مسلم شريف ميں اور نہ ہى حديث كى كسى دوسرى صحيح كتاب ميں موجود ہے.

بلكہ يہ بدعت منكرہ ہے، اس ليے آپ امام كو نصيحت كريں كہ وہ اسے ترك كر دے، اور اسے بدعتى ذكر كے بارہ ميں شريعت كا حكم بتائيں.

اور رہا مسئلہ اس امام كے پيچھے نماز ادا كرنے كا تو يہ جائز ہے، ليكن افضل يہ ہے كہ آپ اس بدعتى كے علاوہ كسى اور امام كو تلاش كريں جو كتاب و سنت پر عمل كرے، اور آپ كو اس كى تعليم دے؛ كيونكہ خدشہ ہے كہ بعض نمازى اس كے دھوكہ ميں آكر اس كى تقليد كرتے ہوئے اس بدعت كو نشر كرنے لگيں گے، ليكن اس سے قبل آپ اسے وعظ و نصيحت كرنا مت بھوليں، اور صحيح سنت كى جانب اس كى راہنمائى كريں، خاص كر اذكار اور عام عبادات ميں، ليكن اگر پھر بھى وہ اپنى بدعت سرانجام دينے پر اصرار كرے تو پھر اسے نماز كى امامت سے روكنے ميں كوئى مانع نہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

رہا مسئلہ بدعتى كے پيچھے نماز ادا كرنا تو اس كے متعلق گزارش يہ ہے كہ: اگر تو ان كى بدعت شركيہ ہو مثلا غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے نذر و نياز دينا، اور اپنے پيروں اور مشائغ كے متعلق ايسے اعتقادات ركھنا جو اللہ كے علاوہ كسى اور ميں نہيں مثلا كمال علم، اور غيب كا علم اللہ كے علاوہ كسى اور ميں بھى ہے، يا پھر جہاں ميں وہ بھى اثر انداز ہوتے ہيں، تو ايسے لوگوں كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح نہيں.

ليكن اگر ان كى بدعت شركيہ نہيں؛ مثلا ايسا ذكر جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت تو ہے ليكن وہ اجتماعى طور پر جھوم جھوم كر كيا جاتا ہو، تو ان كے پيچھے نماز صحيح ہے.

ليكن مسلمان شخص كو ايسا امام تلاش كرنا چاہيے جو بدعتى نہ ہو؛ تا كہ اجروثواب زيادہ حاصل ہو اور منكرات سے زيادہ دور رہا جائے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 353 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب